چل چھوڑ مٹی پا

سعد اللہ جان برق  بدھ 1 جنوری 2014
barq@email.com

[email protected]

اگر سروے کیا جائے تو پاکستان میں اگر کسی ’’قول زرین‘‘ پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کے ایک سیاسی درویش کا یہ قول زرین ہے کہ چل چھوڑ مٹی پا … یا مختصر طور پر مٹی پا … اس میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا کمال تو یہ ہے کہ یہ ہے تو اصل میں ’’قول خاکین‘‘ کیوں کہ مٹی ڈالنے کا ذکر ہے لیکن جو لوگ کمال کرتے ہیں وہ مٹی کو بھی سونا بنا لیتے ہیں اور قول خاکین کو ’’قول زرین‘‘ بنا ڈالتے ہیں، چھوٹے چھوٹے دو لفظ ہیں ’’مٹی پا‘‘ لیکن وہ کوزہ بھی تو چھوٹا ہوتا ہے جس میں اہل کمال سمندر کو بند کر دیتے ہیں ایسے ہی لوگ دراصل ’’ہم کوزہ و ہم کوزہ گر و ہم گل کوزہ‘‘ہوتے ہیں یعنی کوزہ بھی خود کوزہ گر بھی خود کوزے کی مٹی بھی خود اور سمندر بھی خود۔

14 اور پندرہ اگست 1947ء کی آدھی شب سے لے کر لمحہ موجود تک پاکستان میں اگر کوئی کام ڈھنگ سے ہوتا رہا ہے تو وہ یہی ہے کہ مٹی پا … سب سے پہلے قائداعظم کے ساتھ کیا ہوا اور بنگال میں زبان کے مسئلے پر کتنا خون بہا، لیکن اس سوال کو شرمندہ جواب کرنے کے بجائے … مٹی پا … پھر لیاقت علی خان نے روس کا دورہ انتہائی ملتوی کر کے امریکا کی طرف رخت سفر کیوں باندھا، لیکن جواب ڈھونڈنے کے بجائے مٹی پا … پھر وہی لیاقت علی خان جو اس سوال کا جواب بتانے والا تھا اچانک بیچ بازار اور ایک بڑے ہجوم خلقت کے سامنے نشانہ بنتا ہے سوال تھا کیوں؟ لیکن جواب تھا … مٹی پا … لیاقت علی خان کے قتل کی فائل اچانک غائب ہو جاتی ہے اور متعلقہ افسر کو تیز رفتار ترقی ملتی ہے اس کا جواب بھی مٹی پا … پھر اچانک بنگالی رونے لگتے ہیں لیکن ان کو دلاسہ ملنے کے بجائے تھپڑ ملتے ہیں … کیوں؟ چل چھوڑ مٹی پا … خرابی بسیار اور بہت ساری ’’مٹی پا‘‘ کے بعد انتخابات ہوتے ہیں لیکن نتیجے کو تسلیم نہیں کیا جاتا کیوں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں اقلیت کے باوجود اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا … اس پر بھی ’’مٹی پا‘‘ … پھر جمہوریت پر عمل درآمد کرنے کے لیے بنگالی آواز اٹھاتے ہیں تو اس کا جواب گولیوں سے ملتا ہے اور بہت سارے پاکستانیوں پر بلڈوزروں سے ’’مٹی پا‘‘ … پھر پاکستان کو سر سے پیر تک چیر کر ایک ٹکڑا خلیج بنگال میں ڈبویا جاتا ہے پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا، باقی مٹی پا … پھر اچانک ٹک ٹک ٹکا ٹکا کا دور چلتا ہے اور سیلابوں کی سرزمین پر خون کا سیلاب آتا ہے جس کا واحد علاج تھا مٹی پا … حمود الرحمن کمیشن بنتا ہے تحقیقات ہوتی ہے کہ پاکستان کے تابوت پر کس کس نے کتنی مٹی ڈالی ہے شاید کچھ پتہ چل بھی جاتا لیکن مٹی پا … پھر سرحد اور بلوچستان میں زبردست قسم کی جمہوریت بلکہ عوامی جمہوریت قائم کی جاتی ہے اور منتخب حکومتوں کو ’’مٹی پا‘‘ کیا جاتا ہے لیکن اس پر بھی مٹی پا … اس کے بعد ’’مٹی پا‘‘ کا ایک لمبا سلسلہ چل جاتا ہے اور مرد حق حضرت ضیاء الحق ’’مٹی پانے‘‘ کا ٹھیکہ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور بہت ساری چیزوں پر مٹی پا … چند ڈالروں کے لیے پاکستان کو امریکی جہاد میں جھونکا جاتا ہے اور مٹی پانے کا ایسا سلسلہ چلتا ہے کہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آتا ہے اندرونی طور پر

کبھی سارے کبھی گا ما کبھی پا دھا کبھی نی سا
مسالہ جان کر اس نے سدا ہر گیت کو پیسا

قرضے لیے جاتے رہے اور بانٹے جاتے رہے، سود چڑھتا رہا اور بچہ بچہ مقروض ہوتا رہا، چناں چہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہم تم یعنی پاکستان کا ہر فرد چھیانوے ہزار روپے کا مقروض ہے، لیکن اس کا علاج یہ کیا گیا کہ انکم سپورٹس اسکیموں کے لیے مزید قرضے لیے جائیں گویا قرضے کو قرضے سے کاٹنے کی سبیل اختیار کی گئی اور ساتھ ہی ’’مٹی پا‘‘ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔

اربوں روپے غلط کاموں میں غلط طریقے پر ضایع کیے جاتے ہیں جمہوریت کے نام پر بے شمار بادشاہ اللے تللے کرتے ہیں جھولیاں بھر بھر کر قرضہ لی ہوئی رقمیں ادھر ادھر پھینکی جاتی ہیں، وزیروں اور حکم رانوں کے از پیدائش تاحیات مراعات بڑھتی ہیں تنخواہوں میں اضافے ہوتے ہیں اخراجات کے نام پر بوریاں بھر بھر کر رقومات دی جاتی ہیں اور منتخب نمایندے اس کے عوض صرف گورکنوں کا کام کرتے ہیں اور ہر چیز پر ’’مٹی پا‘‘ کرتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں کہ پوچھنے کے بجائے مٹی پا کا سلسلہ چل رہا ہے، سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کے پاس سب سے بڑا نہری نظام ہے جفاکش کسان ہیں سونا اگلنے والی زمین ہے لیکن اس کے باوجود بھی مقروض ہیں، کیوں؟ چل چھوڑ مٹی پا … کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک اس سوال پر نہ جانے کیا کیا ہو چکا ہوتا کہ اتنا سب کچھ ہاتھ میں ہونے، بے پناہ ٹیکس لگانے، روزانہ بڑھائے جانے والے نرخوں کے باوجود پاکستان کا اتنا برا حال کیوں ہے، وہ سوراخ کہاں ہے جوکھیت میں آنے والے سارے پانی کو کھیت سے نکال دیتا ہے اور پانی بہانے کے باوجود فصل سوکھ رہی ہے جل رہی ہے ضایع ہو رہی ہے، ایک کہانی میں ایک ’’بلا‘‘ کو ہیرو اس کام پر لگا دیتا ہے کہ مجھے دریا کا پانی پلاؤ لیکن پانی چھلنی میں لانا ہو گا۔ وہ بلا اس کوشش میں ہلکان ہو گئی لیکن چھلنی میں پانی ٹکتا ہی نہیں تھا دو قدم چلنے کے بعد پانی نکل جاتا تھا اور وہ پھر دریا پر جا کر پانی بھرنے میں لگ جاتی اور وہ ’’بلا‘‘ شاید پاکستانی سیاست اور معیشت ہے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک چھلنی میں پانی بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ہم یہ کریں گے اور ہم وہ کریں گے
بہت جلد یہ ہو جائے گا
بہت جلد سارے مسئلے حل ہو جائیں گے
بہت جلد پاکستانی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی
بہت جلد پاکستانی عوام خلد آشیانی ہو جائیں گے
ہماری حکومت نے یہ کیا
ہماری حکومت وہ کرے گی
ہماری پارٹی‘ہماری پارٹی
خاک ہو جائے گا اور خاک ہی ہوتا ہے کیوں کہ ’’مٹی پا‘‘ کا اٹوٹ سلسلہ برابر چل رہا ہے، اس سے زیادہ ’’مٹی پا‘‘ کا سلسلہ اور کہاں ہو گا، کہ ملک دونیم ہوتا ہے عوام برابر کام کرتے ہوئے بھی بھوکوں مر رہے ہیں، قرضے چڑھ رہے ہیں وزیراعظم قتل ہوتے ہیں عوام قتل ہوتے ہیں حتیٰ کہ پورا ملک قتل ہوتا ہے اور مجرم کا پتہ نہیں چلتا کیوں کہ اس پر مٹی پائی جاتی ہے، کتنے احتسابی ادارے بنے کتنے محاسب آئے کتنے حساب کتاب ہوئے، کتنے مقدمے چلے، کتنے فرد جرم عائد ہوئے، کتنے ڈاکے ڈالے گئے، کتنے بینک لوٹے گئے، کتنے ادارے تباہ ہوئے، لیکن کسی کو انگلی تک نہیں لگائی جا سکی کیوں کہ سب پر مٹی پا ہو جاتا ہے کیوں کہ وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس ملک میں آج تک صرف ایک ہی کام ہوتا رہا ہے اور مسلسل ہوتا رہا ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ آیندہ بھی ہوتا رہے گا اور وہ کام ہے مٹی پا … اور یہ مٹی کہیں پائی جائے سیدھی جا کر بدبخت ترین عوام کے سر پر پڑتی ہے کیوں کہ یہی بدقسمت ہی نشیب میں بستے ہیں

ہر بلائے کہ ز آسماں بود
خانہ انوریؔ تلاش کند

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔