طالبان سے مذاکرات ... امید و خدشات

ایڈیٹوریل  بدھ 1 جنوری 2014
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے مذاکراتی پیشکش مسترد کرتے ہوئے حکومت سے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے پی پی

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے مذاکراتی پیشکش مسترد کرتے ہوئے حکومت سے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم نواز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو طالبان سے مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے جب کہ مولانا سمیع الحق نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن بند اور وہاں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو تحریک طالبان پاکستان کی قیادت سے مذاکرات کا جو ٹاسک دیا گیا ہے وہ خوش آیند ہونے کے ساتھ ساتھ ان حلقوں کے لیے حیران کن بھی ہو گا جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کو بے معنی، بے نتیجہ اور ’’زیرو سم گیم‘‘ سے زیادہ وقعت نہیں دیتے، بعض سیاسی مبصرین اور دفاعی حلقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طالبان سے مکالمہ کی خواہش اور عملی کوششوں کی جامع حکمت عملی ماضی کے متعدد جرگوں، عالمی ڈیکلیریشن، مقامی معاہدوں اور یقین دہانیوں کی روشنی میں طے کی جائے۔ ایک انداز فکر یہ بھی ہے کہ حریف سے مکالمہ کا فیصلہ طاقت کے استعمال اور جنگجوئی سے بہتر آپشن ہے تاہم طالبان سے مذاکرات کرتے ہوئے تاریخ سے سبق ضرور لیا جائے، عالمی صورتحال، خانہ جنگی، ہولناک جنگوں اور داخلی شورش و بدامنی کے بعد مصالحت و مفاہمت اور صلح کل پر منتج ہونے والے معاہدات امن کا تاریخی شعور بات چیت کی اساس ہونا چاہیے۔ اس میں کیا شک ہے کہ طالبان کا ایجنڈا پاکستان کی ریاستی سلامتی، آئین کی حرمت، جمہوری نظام، عوامی زندگی کی اقدار اور سماجی و مذہبی اجزائے ترکیبی کی مکمل نفی پر قائم ہے، اپنے اس فسطائی ایجنڈے کے تحت تحریک طالبان پاکستان نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ جیسی ہولناک دہشت گردی کو ’’وار آن پاکستان‘‘ کی شکل دے رکھی ہے، اس نے فوج پر حملے کیے اور اپنے سربراہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد حکومت کی مذاکراتی دعوت کو رد کیا اور کہا کہ بدلہ لیں گے۔

اگر بات چیت کے امکانات پھر بھی ابھرتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی حل نہیں۔ لیکن یہ مکالمہ نیتوں کا امتحان ہو گا۔ میڈیا کے مطابق نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کو بتایا کہ طالبان سے مذاکرات حکومت کی پہلی ترجیح ہیں۔ یہ پیشرفت غالباً اس انداز نظر کے ساتھ وزیر اعظم نے کی ہے کہ گزشتہ روز وہ واضح کر چکے تھے کہ فاٹا کے علاقے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت کا موقف یکساں ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تازہ بیان ہے کہ دہشت گردوں کے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے، حکومت کی زیر قیادت جاری امن عمل کے حامی ہیں۔ یہ پیغام یقیناً طالبان قیادت کو ایک بلیغ ترین انداز میں دیا گیا ہے۔ ملاقات کے حوالے سے مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن بند اور وہاں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے، مولانا سمیع الحق کے مطابق بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ڈرون حملے بند کرائے جائیں۔ ایکسپریس کے ایک ٹی وی پروگرام میں انھوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں محسوس ہوا کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ ہیں، اس سے یہ پیغام بھی ملا ہے کہ آپریشن کی تیاری کی باتیں درست نہیں۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کسی قسم کا آپریشن نہیں ہو رہا، مذاکرات ہماری پہلی ترجیح ہے، طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم تشکیل دیدی جو قومی عزت کو افضل رکھ کر مذاکرات کر رہی ہے۔

اس حوالے سے چند اہم نکات کا سامنے لایا جانا بے حد ضروری ہے، وہ یہ کہ حکومت مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے جب کہ سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں اور میڈیا میں بھی تحفظات اور موافقانہ و مخالفانہ آراء و تجزیوں کا طوفان برپا ہے، ’’اچھے برے طالبان‘‘ کی گونج بھی سنائی دیتی ہے، قوم اپنے سروں پر طالبان کی ڈھائی ہوئی قیامت کے اندوہناک تجربات و حوادث بھی جھیل چکی ہے، مگر اس سب کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی طالبان سے مذاکرات کی کوشش کا قوم یقیناً خیر مقدم کرے گی کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی اور قوم کے مستقبل اور بقا کا مسئلہ ہے۔ منگل کو ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے انسداد دہشتگردی بل میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دیدی، وفاقی وزیر داخلہ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قومی سلامتی پالیسی کے بارے میں بھی آگاہ کیا، اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان اپنی داخلی سلامتی پر کسی قسم کے ابہام کا اب متحمل نہیں ہو سکتا اور اسی جذبہ کے ساتھ نواز شریف طالبان کو بات چیت کی پیشکش کر رہے ہیں۔

اب جہاں تک طالبان کی قیادت کے ساتھ مولانا سمیع الحق کے خیر سگالی اور برادرانہ تعلقات کا تعلق ہے وہ اگر اس ٹاسک کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بڑے دوررس نتائج نکل سکتے ہیں، اور دو طرفہ مفاہمت اور امن پر اتفاق رائے سے ان قوتوں کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے تاریخی اور اسلامی رشتوں کو بلڈوز کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس نکتہ پر بھی طالبان یا ہمارے رابطہ کار مولانا سمیع الحق کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ ڈرون حملے بند کرنا امریکی حکومت کا کام ہے، پاکستان نے اس مد میں کئی بار احتجاج کیا ہے اور ستمبر 2013ء کی کل جماعتی کانفرنس کے 6 نکاتی ایجنڈے میں مطالبہ کیا تھا کہ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو معاملہ اقوام متحدہ تک لے جایا جائے گا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی ان حملوں کو غیر قانونی اور عالمی قوانین کے منافی قرار دے چکی ہے۔

تاہم بنیادی حقیقت یہ ہے جیسا کہ بیشتر تجزیہ کار کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے بات چیت بظاہر آسان لگتی ہے مگر اس کے ساتھ ملحق 50 سے زاید جنگجو گروپ یا امن کی طرف جزوی طور پر مائل حلیفوں کو ایک ہی نشست میں کسی ایک نقطۂ امن و سیز فائر پر لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہی ہو گا لیکن ملکی سالمیت کو ہر شے پر فوقیت حاصل ہے۔ عوام کی زندگیوں کی جمہوری ضمانت ارباب اختیار کو بجا طور پر بے چین کیے ہوئے ہے کہ فاٹا بلوچستان، کراچی اور پنجاب کے کونے کونے میں امن بحال ہو تا کہ کوئی طالع آزما داخلی بدامنی سے جمہوریت پر شب خون مارنے کے خواب نہ دیکھے۔ ملکی تاریخ میں ہر بار دیکھا گیا کہ ہر آمریت امن، انصاف، ترقی اور خوش حالی کا راگ الاپ کر رخصت ہو جاتی ہے اور ہر جمہوری حکومت کے دی اینڈ پر عوام بیچارے کہتے ہیں کہ’غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔‘

اب جمہوری دور اور اس کے آداب حکمرانی کو میڈیا کے بے رحمانہ احتساب اور عدلیہ کے دلیرانہ فیصلوں کا سامنا ہے۔ سماج اور اس میں رہنے والا غریب الوطن عام آدمی انصاف، مساوات، امن اور، معاشی آسودگی چاہتا ہے۔ اسے یہ ثمرات وہی جمہوری حکومت دے سکے گی جسے داخلی امن کی دولت ملی ہو۔ موجودہ حکومت طالبان سے بات چیت اسی امید پر کرنے کی خواہاں ہے تا کہ ریاستی رٹ قائم رہے، عوام کو ریلیف ملے اور شورش، دہشت گردی، انتہا پسندی کی جگہ پرامن بقائے باہمی کا ماحول پیدا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔