خوئے غلامی

نصرت جاوید  بدھ 1 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اعلیٰ الاسوانی مصر کے ایک مشہور ناول نگار ہیں۔ اپنی تحریروں سے کافی شہرت اور مناسب دولت کمانے کے باوجود وہ اب بھی بڑے شوق کے ساتھ اپنے اصل پیشے یعنی طب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ دانتوں کے معالج ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ دوسرے لکھاریوں کی طرح انھیں روزمرہّ زندگی کے دلچسپ کرداروں کو ڈھونڈنے کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ ان کے مریضوں کی بے پناہ تعداد انھیں انتہائی ڈرامائی واقعات اور کرداروں کے بارے میں ہمیشہ باخبر رکھتی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے الاسوانی جنونیوں کی طرح اپنے ملک کے شہریوں کی ’’بنیادی نفسیات‘‘ کو سمجھنا چاہ رہے ہیں۔ مگر اب تک انھوں نے دریافت کیا ہے تو صرف اتنا کہ مصر کے لوگوں میں صدیوں سے جاری استحصالی نظام کی وجہ سے ’’خوئے غلامی‘‘ ایک ایسی عادت کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کا انھیں ازخود احساس تک نہیں ہوتا۔ عاجز بنائے افراد کو اپنے حقوق کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ وہ فطری طورپر طاقتور لوگوں کی دھونس میں آجاتے ہیں اور اس بارے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔

اپنے اس دعویٰ کو بیان کرنے کے لیے حال ہی میں انھوں نے عربی میں ایک طویل انشائیہ لکھا جسے انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز نے انگریزی میں ترجمہ کرواکر نمایاں طورپر چھاپا ہے۔ میں نے اس مضمون پر سرسری نظر ڈال کر ابتدائیہ ختم کیا تو اس مضمون کی تفصیلات میں کھوکر حیران وپریشان ہوتا رہا۔ ایک واقعہ جو انھوں نے بیان کیا اس نے تو مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

الاسوانی کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ابتدائی ایام میں ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ ایک دن اس اسپتال کے ایک چھوٹے ملازم نے انھیں اپنے دانت دکھائے تو الاسوانی نے فیصلہ کیا کہ اس مریض کے دو دانتوں کا فوری طورپر آپریشن کرنا چاہیے۔ مریض کو دندان ساز کی کرسی پر بٹھاکر انھوں نے اس کے دانتوں کو سن کرنے کے بعد ایک آلہ کے ذریعے خراب دانتوں کی نشاندہی کرنا شروع کردی۔ ابھی وہ اس کام میں مصروف ہی تھے کہ اس اسپتال کے سب سے بڑے افسر کی سیکریٹری بھاگتی ہوئی ان کے کمرے میں آئی اور اعلان کردیا کہ یہ کمرہ اس کے باس کے لیے خالی کردیا جائے کیونکہ اس کے دانتوں میں تکلیف ہے اور وہ اسے فوراََ دکھانا چاہ رہا ہے۔ الاسوانی نے بڑی سختی مگر احترام کے ساتھ سیکریٹری کو مطلع کیا کہ وہ ایک مریض کو پہلے سے دیکھ رہے ہیں۔

اس کے خراب دانتوں کی نشاندہی بھی کرلی ہے۔ تقریباََ ایک گھنٹے تک وہ اس مریض سے فارغ ہوجائیں گے۔ اسپتال کا باس اتنی دیر انتظار کرلے۔ سیکریٹری کوڈاکٹر کا جواب پسند نہ آیا۔ وہ انھیں برا بھلا کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ مگر اس دوران سن کیے دانتوں سمیت ان کا مریض اپنی کرسی چھوڑ کر خوف سے کانپتا اُٹھ بیٹھا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اس مریض نے بڑی سختی سے الاسوانی کو یہ بھی بتایا کہ اس اسپتال کا سب سے بڑا افسر ہوتے ہوئے سیکریٹری کا باس کسی بھی وقت اپنے حکم کی فوری تعمیل دیکھنے کا ’’حق‘‘ رکھتا ہے۔

ڈاکٹر کو اس کے کمرے میں حیران کھڑا چھوڑ کر وہ مریض بالآخر سیکریٹری کے باس کے پاس چلاگیا اور اسے کافی منت سماجت کے بعد الاسوانی کے پاس لے آیا۔ الاسوانی کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہ کئی برسوں تک تقریباََ بے حس ہوگئے۔ انھیں اس فکر نے ذہنی طورپر مفلوج کردیا کہ ان لوگوں کے حق میں کوئی اصولی موقف اپنانے کا کیا فائدہ جو اپنے حقوق کا احساس ہی نہیں رکھتے اور اس شخص کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں جو ان کے روزمرہّ کے حقوق کے حصول کے لیے کسی اصولی بات پر ڈٹ جاتا ہے۔

الاسوانی کا مضمون پڑھنے کے بعد میرا ذہن خودبخود جنرل مشرف کے بارے میں سوچنا شروع ہوگیا۔ اپنے دور اقتدار میں انھوں نے مجھے پیشہ ورانہ حوالوں سے کافی تکلیف پہنچائی۔ مگر سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ مادرِ ملت نے جب 1964ء میں ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا تو میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس چھوٹی عمر میں بھی میں اپنے سینے پر لگے لالٹین والے بیج کو جو ان کا انتخابی نشان تھا سوتے میں بھی نہ اُتارتاتھا۔ اس سال کے بعد سے جو بھی زندگی گزاری اور تاریخ اور عالمی سیاست کا جتنا بھی مطالعہ کیا اس نے مجھے یہی سمجھایا کہ فوجی آمریت معاشروں کو بالآخر فکری حوالوں سے مردہ بنادیتی ہے۔ جنرل مشرف کے دور والی چھوٹی موٹی زیادتیاں بلکہ مجھے ضیاء الحق کے گیارہ سالوں میں پھیلائی دہشت کے تناظر میں محسوس تک نہ ہوئیں میں ان پر زیادہ تر خندہ زن ہی رہتا۔ میں پورے خلوص سے یہ سوچتا ہوں کہ تقریباََ دس سال تک ’’کن فیکون‘‘ والے اختیارات کے مزے لینے کے بعد جنرل مشرف کو خاموشی سے بیرون ملک اپنی زندگی کے باقی دن راحت اور سکون کے ساتھ گزارنا چاہیے تھے۔ انھوں نے اپنی قوت کا غلط اندازہ لگایا اور پاکستان آگئے جہاں نواز شریف کے پاس ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

چند دنوں سے البتہ میں یہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں کہ بات اتنی سادہ بھی نہیں جو میں فرض کیے بیٹھا تھا۔ لوگوں کی ایک کافی بڑی تعداد ہے جسے شاید جنرل مشرف سے کوئی خاص محبت نہیں رکھتی مگر وہ 2008ء سے جاری جمہوری نظام سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ان کے غصے کو عمران خان نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کافی حد تک کیش کروالیا ہے مگر ناراض لوگ مطمئن نظر نہیں آرہے۔ بتدریج یہ بات کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئی ہے کہ جیسے پاکستان کے ’’بلغمی مزاج‘‘ کو فوجی آمریت ہی راس ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار پاکستان میں ’’خوش حالی‘‘ لائے تھے۔ معاملات کلی طورپر سیاست دانوں کے ہاتھ چلے گئے تو ہر چیز کا بیڑا غرق ہوگیا۔

میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت ایسا سوچتی ہے۔ پریشان کن بات مگر یہ ہے کہ ہماری شہری آبادی کے وہ طبقات جنھیں Vocalکہا جاتا ہے یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارے تمام سیاستدان شہری متوسط طبقے کے Vocalعناصر میں پائے جانے والے ان جذبات کا پوری طرح احساس نہیں کر پارہے۔ غالباََ ہماری اجتماعی نفسیات ہمیشہ ایک سخت گیر رہ نما کی منتظر رہتی ہے جو ریاست کی پوری قوت کے ساتھ ہمیں ’’ٹھیک راستوں‘‘ پر چلانا شروع کردے۔ ایک سخت گیر باپ جیسے رویے والے لیڈر کا انتظار کرتے ہوئے ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ ایوب خان کے ’’ترقی والے دس سالوں‘‘ نے بالآخر ہمیں کیا دیا۔ یحییٰ خان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی؟ ضیاء الحق کے ’’افغان جہاد‘‘ کا خمیازہ بھی اب ہم پوری طرح بھگت رہے ہیں۔ جنرل مشرف نے بھی ملک کو مزید تقسیم اور منتشر کیا تھا۔ مگر اس ’’خوئے غلامی‘‘ کا کیاکیا جائے جو ’’آیندہ خان‘‘ کی مسلسل منتظر رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔