دودھ پی جانے والے بلے

رئیس فاطمہ  بدھ 1 جنوری 2014

قارئین کرام۔۔۔! ’’سال نو‘‘ مبارک ہو۔۔۔۔کہ ہم سب ہمیشہ ہر نئے سال کے آغاز پر یوں ہی چند موہوم امیدوں کے ساتھ نئے سال کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

آج نئے سال کا دوسرا دن ہے۔۔۔۔ کیا اس سال ایسا کچھ ہونے والا ہے جو اس بدنصیب پاکستانی قوم کے حق میں بہتر ہو۔۔۔۔؟۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔۔۔۔کیونکہ جمہوریت کی ڈگڈگی سے صرف آمریت اور موروثی سیاست ہی کو نچایا جاتا ہے۔۔۔۔کیونکہ گدی نشین اور سجادہ نشین کبھی اپنی موروثی گدی کو نہیں چھوڑتے۔۔۔۔پاکستان کو سنجیدہ طبقہ اب ایک ملک کے بجائے ایسی چراگاہ کہنا پسند کرتا ہے جہاں ہر طرف شیروں، بھیڑیوں کی عمل داری ہے۔ یہ جب تک بوڑھے نہیں ہوتے اپنے بچوں کو آیندہ کی حکمرانی کے داؤ پیچ سکھاتے رہتے ہیں۔ بوڑھے ہوکر جب شکار کرنے کے قابل نہیں رہتے تو اپنے بچوں کے ناخن اور پنجے تیز کرکے چراگاہ میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ان کا بڑھاپا آرام سے گزر سکے۔ اور یوں نسل در نسل جنگلوں کے یہ بادشاہ ہمیشہ میمنے، بھیڑوں، بکریوں اور گائے کے بچوں کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔۔۔!!

پچھلے چند دنوں سے سیاسی قوتوں کو لڑا کر دودھ پی جانے والے ’’بلے‘‘ کا ذکر تواتر سے آرہا ہے۔ سرخیوں اور پٹیوں کی زینت بھی بن رہا ہے۔۔۔۔کیا مجھے اور میرے وطن کے باشعور، سنجیدہ سوچ رکھنے والوں کو ’’محترم‘‘ سے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ جب آپ نے اقتدار میں رہتے ہوئے اس ’’بلے‘‘ کو ’’گارڈ آف آنر‘‘ پیش کرکے پورے پروٹوکول کے ساتھ الوداع کیا تب آپ کو یہ ’’بلا‘‘ کیوں اتنا عظیم اور طاقت ور لگا۔۔۔؟ اور کیا لوگوں کو یہ بھی یاد دلانا ہوگا کہ اسی ’’بلے‘‘ سے NRO کس نے کیا۔۔۔؟۔۔۔۔اسی ’’بلے‘‘ سے تحریری معاہدے کرکے کون بڑے لوگوں نے شاہی محلات میں عیش و عشرت کی زندگی گزاری۔۔۔۔؟۔ جو صاحب آج کل دودھ پی جانے والے ’’بلے‘‘۔۔۔۔ کی جانب موجودہ حکومت کی توجہ دلا رہے ہیں اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایک بار پھر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کھیل جاری و ساری رہے۔۔۔۔؟۔۔۔۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بیان بازی کے پس پردہ کوئی اور سازش تیار کی جا رہی ہو تاکہ یہ کہا جاسکے کہ۔۔۔(خالی جگہ خود بھر لیجیے) البتہ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ سابقہ حکومت کے وفادار جس طرح مہنگائی، غربت اور میرٹ کے قتل عام پر موجودہ حکومت کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اس کے اصل ذمے دار تو وہ خود ہیں۔ پانچ سالہ مدت پوری کرنا گویا ایسا کارنامہ تھا جس پر سابقہ حکومت کے ہر وزیر کو سونے کا میڈل ملنا چاہیے تھا (حالانکہ ان کے ذاتی خزانوں میں کروڑوں کا سونا موجود ہے) کہ انھوں نے مہنگائی کے حوالے سے ایک بار پھر اسی سابقہ ڈکٹیٹر کو یاد کرنا شروع کردیا تھا جس کی بارگاہ میں حاضری دے کر انھوں نے اقتدار کی مسند پہ قدم رکھا تھا۔۔۔!!

پاکستان شاید نہیں بلکہ یقینا وہ بدنصیب ملک ہے جس میں بسنے والوں کو اس مٹی سے پیار نہیں جو انھیں رزق دیتی ہے۔ پانچ فیصد وہ محب وطن افراد بے وقوف سمجھے جاتے ہیں جو اس وطن کی مٹی کو آنکھوں سے لگانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ دور بے ضمیروں اور وطن دشمن گروہوں کے نرغے میں ہے۔ جو گولی اور گالی کو اپنا مسلک سمجھتے ہیں۔ ایک اور بدقسمتی یہ کہ یہاں لاشوں پہ سیاست کی جاتی ہے۔ صاحب اقتدار ہونا کتنی بڑی بات ہے کہ وراثت میں ملنے والی لاشیں بھی اقتدار کے دروازے وا کیے جاتی ہیں۔ بابا کی لاش، اماں کی لاش، بیوی کی لاش، بہن کی لاش۔۔۔۔۔لاشوں کی سیاست بھی گویا ہماری موروثی سیاست ٹھہری۔۔۔۔اس کے ثمرات ہر طرف جلوہ گر ہیں۔ اس حد تک کہ ’’اپوزیشن‘‘ کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ سابقہ اور موجودہ صاحبان اقتدار اب مل کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔لیکن یہ یاد رہے کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے، کارگل کی چوٹیوں پہ انتہائی تکلیف دہ حالات میں اپنی ڈیوٹی پوری کرنے والے اور وطن کی خاطر جان نچھاور کرنے والوں کو قوم اب بھی سلام کرتی ہے اور ان سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ اگر حالات یوں ہی رہے اور لیڈر صرف اپنے خاندانوں کو پالتے رہے تو دودھ پی جانے والے ’’بلوں‘‘ کو دودھ کے بجائے ’’ملائی‘‘ بھی مل جائے گی۔۔۔۔!!

گزشتہ کالم میں ایک شعر جوکہ غلطی سے محبوب خزاں سے منسوب ہوگیا تھا دراصل رئیس فروغ کا ہے، شعر یہ تھا:

سفر میں جب تلک رہنا‘ گھروں کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر‘ بیتے سفر کی گفتگو کرنا

اسی کالم کے حوالے سے لاہور سے افتخار مجاز کے تین SMS موصول ہوئے جن میں انھوں نے کہا کہ 2013 میں بچھڑنے والی شخصیات میں فرمان فتح پوری، عباس اطہر، محمد علی صدیقی، داؤد رہبر، انور فیروز، آسیہ، فیضان پیرزادہ وغیرہ بھی تھے۔ مجھے ان کا ذکر خیر بھی کرنا چاہیے تھا۔ مجاز صاحب کی بات سو فیصد درست۔ البتہ اس فہرست میں منیر حسین اور زبیدہ خانم کا اضافہ میں خود کردیتی ہوں۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ میرے حافظے کی زنبیل میں موجود نہیں تھے۔ دراصل کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر میں نے صرف ان شخصیات کو لیا جن سے میں اچھی طرح واقف تھی۔ میرے استاد فرمان فتح پوری کی ادبی و علمی خدمات کے لیے تو پورا ایک کالم بھی ناکافی تھا۔ محض چند لفظوں میں ان کا تذکرہ زیب نہیں دیتا تھا۔ کرکٹ کمنٹری سے وابستہ منیر حسین تو میری اسکول کی ساتھی رخسانہ کے سگے ماموں تھے۔ ان کے گھر (جوبلی سینما والے) رخسانہ کے ساتھ جب بھی گئی منیر حسین کی بیگم نے بہت مزیدار کھانا کھلایا۔ منیر حسین کی بیٹی کو بھی میں نہیں بھولی۔ رخسانہ اور اس کی بڑی بہن نفیسہ کے علاوہ پورا گھر میرے لیے محبتوں کا گہوارہ تھا۔ وہ جہاں بھی جاتی مجھے ساتھ لے جاتی۔ منیر حسین کی بہنیں بھی میرے لیے سگی خالاؤں کی طرح تھیں۔ رخسانہ کی والدہ کبھی مجھے کھانا کھائے بغیر نہیں آنے دیتی تھیں۔ منیر حسین کو میں نے اپنی سہیلی کے توسط سے جانا۔ لیکن طوالت نے اجازت نہ دی کہ مندرجہ بالا تمام شخصیات کو ایک ہی کالم میں یاد کرتی۔۔۔۔انشاء اللہ پھر کبھی سہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔