ٹیکسوں کا اسلامی نظام

سید عاصم محمود  اتوار 24 جنوری 2021
قران وسنت پہ مبنی سادہ اور غیرپیچیدہ آفاقی سسٹم ارض پاک سے بدعنوانی ختم کر سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

قران وسنت پہ مبنی سادہ اور غیرپیچیدہ آفاقی سسٹم ارض پاک سے بدعنوانی ختم کر سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

پچھلے دنوں ایک انٹرویو دیتے ہوئے ہمارے وزیراعظم  نے بتایا کہ ملک بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد پاکستانی بڑے بڑے گھروں میں رہتے اور قیمت گاڑیاں رکھتے ہیں۔ان کا رہن سہن بھی شاہانہ ہے…مگر ان میں سے بہت کم افراد ایمان داری سے انکم ٹیکس دیتے ہیں۔

انھوں نے پھر شکوہ کیا کہ جب دولت مند پاکستانی ہی ٹیکس نہیں دیتے ،تو ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟یہ حقیقت ہے کہ ٹیکس نظام کا موثر نہ ہونا اور ٹیکس چوری ان چند بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے جن کے باعث وطن عزیز ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت نہیں بن سکا۔دیگر اہم وجوہ میں سرکاری اور نجی سطح پر پائی جانے والی کرپشن اور حکمران طبقے کی نااہلی سرفہرست ہیں۔وزیراعظم نے درست کہا کہ کئی پاکستانی دیانت داری سے ٹیکس ادا نہیں کرتے اور کہیں نہ کہیں ہاتھ دکھا جاتے ہیں۔ان میں سے بعض تو لالچی اور چور ہیں۔

یہ ملک وقوم کے واضح مجرم اور گناہگار ہیں۔لیکن دیگر پاکستانیوں کا استدلال ہے ، وہ ایمان داری سے ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگر انھیں حکمران طبقے(خصوصاً افسر شاہی اور سیاسی لیڈروں) پر اعتماد نہیں کیونکہ  وہ ٹیکسوں سے جمع کردہ بیشتر رقم ہڑپ کر جاتاہے۔اسی لیے وہ اپنی آمدن  ٹیکسوں کی صورت سرکار کودینے کے بجائے اسے مستحقین میں بصورت خیرات بانٹ دینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔

اعتماد کی کمی

گویا پاکستان میں ٹیکس دہندگان اور حکمران طبقہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رکھتا۔ان کے مابین بھروسے کا فقدان ہے۔فریقین ایک دوسرے پر چور ڈاکو ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔اس کشمکش سے مگر ملک وقوم ،خاص طور پر غریب پاکستانیوں کا ہی نقصان ہو رہا ہے۔چونکہ ٹیکس نظام غیرمنصفانہ ہے لہذا اس جنگ میں عام پاکستانی ہی پس رہا ہے اور بدقسمتی سے اس کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ماہرین معاشیات کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں مہنگائی کے نئے ریکارڈ بن چکے۔وجہ یہ ہے کہ حکومت نے مختلف ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا۔

کمپنیوں نے اپنی مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں بڑھا کر یہ اضافہ عوام کی طرف منتقل کر ڈالا۔اسی باعث سبھی چیزیں مہنگی ہو گئیں۔حکومت کا استدلال یہ ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں خاص اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کا اصل ’’جرم‘‘یہ ہے کہ وہ غیردستاویزی (informal)قومی معیشت کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔مقصد یہ ہے کہ ٹیکس چور قانون کی گرفت میں آ سکیں۔جواب میں کاروبار و تجارت میں بیٹھے بڑے ٹیکس چوروں نے ایکا کر کے اور کارٹل بنا کر مصنوعی مہنگائی پیدا کر ڈالی۔مدعا یہ ہے کہ ٹیکس نظام موثر بنانے کی سرکاری مہم کو ناکام بنایا جا سکے۔لہذا مہنگائی کرپٹ دولت مند پاکستانیوں کی پیدا کردہ ہے۔

اُدھر پورے ٹیکس نہ دینے والے پاکستانی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ پاکستان میں مغربی ماہرین کا بنایا ٹیکس نظام کام کر رہا ہے۔یہ نظام بنیادی طور پر غریب دشمن بلکہ ظالمانہ ہے۔مغربی ممالک میں یہ نظام اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ وہاں عام آدمی کی آمدن زیادہ ہے۔لہذا سبھی ٹیکس دینے کے بعد بھی اس کے پاس اتنی رقم بچ جاتی کہ وہ اپنے روزمرہ اخراجات پورے کر سکے۔پاکستان میں تو کروڑوں افراد کی روزانہ آمدن صرف دو سے پانچ سو روپے کے درمیان ہے۔ان بیچاروں سے زبردستی ٹیکس لینا جرم بلکہ بہت بڑا ظلم ہے۔مغربی ٹیکس سسٹم میں دراصل ٹیکسوں کی کثرت ہے۔

انکم ٹیکس،سیکز ٹیکس،کارپوریٹ ٹیکس،کسٹمز ڈیوٹیاں اور ایکسائز ڈیوٹیاں تو بنیادی ٹیکس ہیں۔وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتیں اور یونین کونسلوں تک بھی خدمات(سروسسز)پہ مختلف ٹیکس لیتی ہیں۔پاکستان میں تو حکمران طبقے نے کمائی بڑھانے کی خاطر نت نئے ٹیکس ایجاد کر لیے جن میں ودہولڈنگ ٹیکس نمایاں ہیں۔سرکاری دفاتر میںحال یہ ہو چکا کہ عموماً ایک عام فارم دیتے ہوئے بھی رقم بشکل ٹیکس لی جاتی ہے۔سونے پہ سہاگہ،سرکاری دفاتر میں کام ہو تو وہاں تعینات اہل کار اپنا ’’خرچہ پانی‘‘الگ سے وصول کرتے ہیں۔ایسے غیر انسانی اور استحصالی ٹیکس نظام ہی نے پاکستانی غریب عوام کی کمر توڑ دی ۔

مغربی ٹیکس نظام

یہ عیاں ہے کہ مغربی ٹیکس نظام سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں مل سکا۔ٹیکس چوری کے باعث حکومت کو رقم نہ ملے تو وہ جاری اخراجات پورے کرنے کے لیے مالیاتی اداروں سے قرض لیتی ہے۔ پچھلے بیس برس سے پے در پے قرضے لینے کی وجہ سے آج پاکستان ’’چھتیس ہزار ارب روپے‘‘کا مقروض ہو چکا۔پاکستانی حکومت کو ٹیکسوں کی صورت سالانہ چار سے ساڑھے چار ہزار ارب روپے آمدن ہوتی ہے۔اس رقم  کا بیشتر حصہ صرف تین جگہوں پہ لگتا ہے:(1)پچاس فیصد قرضے اتارنے اور سود دینے پر(2)بیس فیصد تنخواہیں اور پنشنیں دینے پر اور (3)بیس فیصد دفاعی اخراجات پر۔گویا عام آدمی کے لیے صرف دس فیصد رقم بچتی ہے۔

اس رقم کا بھی بڑا حصہ حکمران طبقہ ہڑپ کر لیتا ہے۔یہی وجہ ہے،حکومت کے پاس صفائی کرانے کے لیے بھی پیسے نہیں بچتے۔کراچی سے خیبر تک جابجا کوڑے کے ڈھیر دنیا بھر پاکستان کی بدنامی کرتے ہیں۔حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ سڑکیں مرمت کرا دے۔سڑکوں کے گڑھے سواریوںکے اجسام کا انجر پنجر ہلا دیتے ہیں۔

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ مروجہ ٹیکس نظام میں ان ڈائرکٹ یا ’’الُٹے پُلٹے‘‘ٹیکسوں کی حصہ ستر فیصد ہے …یعنی وہ امیر اور غریب کے مابین فرق کیے بغیر ہر پاکستانی پر لگتے ہیں۔سیلز ٹیکس،ودہولڈنگ ٹیکس اور بیشتر کسٹمز وایکسائز  ڈیوٹیاں ایسے ہی ظالمانہ ٹیکس ہیں۔انصاف سے عاری اس بھیانک ٹیکس نظام کا نتیجہ ہے کہ ایک امیر آدمی اگر ماہانہ دال ،روٹی اور گوشت خریدنے پر بلفرض پانچ ہزار روپے بطورٹیکس دیتا ہے تو غریب بھی اتنی ہی رقم ادا کرے گا۔امیر کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا،بیچارے غریب کی بیشتر آمدن ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی بدولت سرکاری خزانے میں پہنچ جاتی ہے۔

حالانکہ حکومت کو غریبوں سے ٹیکس لینے ہی نہیں چاہیں،ان کی مدد کرنا اس کی ذمے داری ہے۔پاکستانی ٹیکس نظام سے وابستہ تمام قباحتوں کا حل اسلامی سسٹم کا نفاذ ہے۔اسلام دین ہی نہیں مکمل نظام حیات بھی ہے۔اسی لیے قران وسنت میں ایک معاشی نظام بھی پیش کیا گیا۔اس کی ایک بڑی خاصیت ایسے ٹیکس نظام کا قیام ہے جس میں دولت امرا سے لے کر غیریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔اوائل اسلام میں اس زمانے کی صورت حال کے مطابق چھ ٹیکس موجود تھے:زکوۃ،عشر،جزیہ،خمس، خراج اور سرکاری محصول۔

زکوۃ دور جدید کا انکم ٹیکس ہے۔یہ صرف دولت مندوں پہ لگتا ہے۔پانچ ارکان اسلام میں شامل ہے۔نبی کریم ﷺ نے اس کا نصاب  87.48گرام سونا یا 612.36گرام چاندی مقرر فرمایا تھا ۔یعنی جس مسلمان کی آمدن سال میں 87.48گرام سونے کی برابر مالیت سے بڑھ جائے تو زائد آمدنی کا 2.50فیصد حکومت کو دے گا تاکہ اس رقم سے عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے بن سکیں۔

اس وقت 87.48گرام خالص سونے کی قیمت 8,28,435.60روپے ہے۔گویا جس مسلمان کی سالانہ آمدن نصاب سے بڑھ جائے،اس کا فرض ہے کہ وہ زائد آمدن کا ڈھائی فیصد سرکاری خزانے (بیت المال)میں جمع کروا دے۔فی الوقت حکومت پاکستان چار سے چھ لاکھ روپے آمدن پہ انکم ٹیکس لگاتی ہے۔یہ شرعی نقطہ نظر سے ناجائز امر ہے۔

عشر زرعی ٹیکس ہے۔اسے ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کھیتی اگر قدرتی منبع(دریا،نہر،چشمہ)سے سیراب ہوتو کسان سالانہ اپنی پیداوار کا دسواں حصہ(فیصد)حکومت کو دے گا۔کھیتی مصنوعی طریقے مثلاً ٹیوب ویل یا کنوئیںسے سیراب ہو تو کسان پیداوار کا پا نچ فیصد دے گا۔

اسلامی حکومت غیرمسلم کسانوں پر بھی زرعی ٹیکس عائد کرتی جو ’’خراج ‘‘کہلایا۔خلیفہ دوم،حضرت عمرفاروقؓنے ایک نیا ٹیکس’’تجارتی عشر‘‘متعارف فرمایا۔دراصل غیرمسلم ممالک اسلامی ریاست سے آئی اشیا پہ ٹیکس لگاتے تھے۔خلیفہ دوم نے ان ملکوں سے آنے والے اشیا پہ تجارتی عشر نافذ کر دیا۔یہ پہلے دس فیصد تھا۔مگر کوئی غیرمسلم ملک اسلامی مصنوعات پہ ٹیکس کی شرح بڑھاتا،تو اسلامی حکومت بھی اپنے ٹیکس کی شرح بڑھا دیتی۔یہ گویا دور حاضر کی کسٹم ڈیوٹی تھی۔مگر جو مسلمان ذاتی استعمال کی اشیا درآمد کرتا،اس پہ تجارتی عشر عائد نہ ہوتا۔اسی طرح درآمدی اشیا کی مالیت دوسو درہم سے کم ہوتی،تو ان پر بھی اسلامی کسٹم ڈیوٹی نہ لگتی۔

اسلامی ریاست میں مقیم غیرمسلم زکوۃ کے بجائے ’’جزیہ‘‘ادا کرتے۔یہ گویا غیرمسلم امرا پہ لگا انکم ٹیکس تھا۔مگر غریب،ضعیف،عورت،بچے،بیمار،معذور اور غلام غیرمسلم سے جزیہ لینا ممنوع تھا۔مذید براں جزیہ دینے والے جنگ کی صورت حصہ نہیں لیتے تھے۔خلفائے راشدین نے غیرمسلم غریبوں کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر کے اولیّں فلاحی مملکت کی بنیاد رکھی ۔

جنگوں سے جو مال غنیمت حاصل ہوتا،اس کا 20فیصد بطور ’’خمس‘‘حکوت لے لیتی۔بقیہ مال سپاہیوں اور ناداروں میں بانٹ دیا جاتا۔مذید براں خلیفہ وقت ضرورت کے مطابق عوام کو دی جانے والی سرکاری خدمات پر مختلف ٹیکس(محصولات)عائد کر سکتا تھا۔مگر ان کی شرح کم رکھی جاتی تاکہ عوام مالی بوجھ کا شکار نہ ہوں۔

اسلامی نظام کی خصوصیت

دور حاضر میں زکوۃ،تجارتی عشر،زرعی عشر اور سرکاری سروسسز پہ لگے محصولات پہ مبنی اسلامی ٹیکس نظام پاکستان میں نافذ ہونا چاہیے۔اس کے ذریعے ان ٹیکسوں کے علاوہ بقیہ تمام ٹیکس غیراسلامی اور ناجائز تصّور ہوں گے۔یہ بڑا بابرکت،مقدس اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔پیچیدگیوں سے پاک یہ سادہ نظام عوام اور حکمران طبقے کے مابین بداعتمادی کا ماحول ختم کرے گا۔موجودہ ٹیکس نظام کو تو حکمران طبقے نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔اور اس نظام میں اکثر ٹیکس غیرشرعی ہیں۔فائلر اور نان فائلر کا معاملہ ہی لیجیے۔

حکومت انکم ٹیکس فائل نہ کرنے والے ہر پاکستانی کو نان فائلر قرار دے چکی۔تب وہ مختلف ودہولڈنگ ٹیکس تقریباً دگنا ادا کرتے ہیں۔سوال یہ ہے،جس پاکستانی کی آمدن چھ لاکھ سے کم ہو،اسے انکم ٹیکس فائل کرنے کی ضرورت ہی نہیں،مگر اس غریب پر بھی ودہولڈنگ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔یہ حکومت کا غریب شہریوں پہ ظلم ہے۔حیرت انگیز بات یہ کہ ریاست مدینہ کا نظام لانے کی دعوی دار پی ٹی آئی حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی جو سراسر غیراسلامی اور غیرانسانی عمل ہے۔

حکومت پاکستان کو ہر سال انکم ٹیکس لگا کر بیس بائیس ارب روپے ملتے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔لیکن وہ دولت مندوں پہ زکوۃ عائد کر کے ہر سال کئی ارب روپے پا سکتی ہے۔وجہ یہ کہ تب ہر امیر پاکستانی کو علم ہو گا کہ اس نے صرف ایک شرعی انکم ٹیکس دینا ہے ۔تب نناوے فیصد مسلمان دولت مند ایمان داری سے اپنے مال اور آمدن پہ زکوۃ  ادا کریں گے۔ابھی تو ان پر لاتعداد ٹیکسوں کا انبار ہے اور اسی لیے ڈنڈی مارنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔مذید براں اسلامی ٹیکس نافذ ہونے سے امیر زمین دار بھی اس کا حصہ بن جائیں گے۔فی الوقت وہ کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

اسی طرح پاکستان میں تجارت،صنعت وحرفت اور کاروبار پہ ان گنت ٹیکس عائد ہیں جو روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔اس شیطانی چکر سے مگر غریبوں پر ہی مالی بوجھ پڑتا ہے۔اگر حکومت صرف تجارتی عشر اور سروسسز ٹیکس لگائے تو ذرا سوچیے کہ ملکی و عالمی تجارت،صنعت وحرفت اور کاروبار پہ بہت زیادہ خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

ابھی تو امرا مختلف طریقوں سے روپیہ چھپا کر رکھتے ہیں۔اسلامی ٹیکس نظام اپنانے سے قومی معیشت میں روپے کی گردش  کئی گنا زیادہ بڑھے گی ۔قومی معیشت تب راتوں رات پھل پھول سکتی ہے۔اس سے غریب پاکستانیوں کو روزگار ملے گا اور آمدن بڑھنے سے ان کا معیار زندگی بلند ہوگا۔روپے کو مسلسل گردش میں رکھنا اور اسے بڑھاوا دینا اسلامی معیشت کی ایک نمایاں خاصیت ہے۔اسی عمل سے تجارت،صنعت وحرفت اور کاروبار پھلتے پھولتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔