- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
خلیجِ بنگال میں روزانہ پلاسٹک کے تین ارب ٹکڑے جمع ہورہے ہیں
بہار: میگھنا اور برہما پترا دریا سے تشکیل پانے والے دریائے گنگا جب خلیجِ بنگال میں گرتا ہے تو روزانہ اپنے ساتھ انتہائی باریک پلاسٹک کے تین ارب سے زائد ذرات بھی سمندر تک پہنچا دیتا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں پلاسٹک کی 90 فیصد مقدار کا تعلق لباس کے ریشوں، سے ہیں جن میں ایکریلک اور ریان سرِفہرست ہیں۔ یہ تمام پلاسٹک کپڑا سازی میں استعمال ہوتے ہیں یا پھر ان کا اہم حصہ بھی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے خصوصی گنگا پروجیکٹ پر تحقیق کے بعد بین الاقوامی ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔
2019 میں مون سون سے پہلے اور بعد میں 60،60 نمونے لیے گئے۔ پورے دریا میں دس مقامات سے پانی کے نمونے لیے گئے اور یونیورسٹی آف پلائے ماؤتھ میں ان کا تجزیہ کیا گیا۔ اس میں بنگلہ دیش کے دریائے بھولا کو بھی دیکھا گیا اور یوں اندازہ لگایا گیا کہ مجموعی طور پر ایک سے تین ارب ذرات دریا میں مل رہے ہیں اور سمندر تک پہنچ رہے ہیں۔ اس تحقیق میں بھارت کے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکہ یونیورسٹی، وائلڈ ٹیم، یونیورسٹی آف ایکسیٹر اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے دریاؤں سے سمندروں یں روزنہ پلاسٹک کے 60 ارب ٹکڑے گررہے ہیں۔ اس تحقیق سے اس عمل کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک بھرے پانی کو 65 کروڑ سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔ جن علاقوں سے پانی کے نمونے لیے گئے ہیں وہاں شہری، دیہی، زرعی، سیاحتی، مذہبی اور دیگر اہم مقامات موجود تھے۔ خیال ہے کہ یہاں سے پلاسٹک کا اخراج زیادہ ہورہا ہوگا اوراب اس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں دریا اور جھیلوں کا پلاسٹک سمندر تک جانے کے لیے روکنے والے کسی نظام کے لیے حال ہی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ یورو کی رقم بھی رکھی گئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔