- سندھ میں طلبا کی 50 فیصد حاضری کی پالیسی جاری رکھنے کا فیصلہ
- نوجوانوں کو روزگار دینا سب سے بڑا مسئلہ ہے، وزیر اعظم
- افغانستان میں مقتول صحافی کے گھر پر حملے میں 3 ہلاک، 3 اغوا
- حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا امکان، رائع
- حمزہ شہباز کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، شاہد خاقان عباسی
- ميانمار ميں فوجی بغاوت کیخلاف مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ، 4 ہلاک
- پی سی بی نے 6 کرکٹ ایسوسی ایشنز کیلیے فرسٹ بورڈز کی منظوری دیدی
- سینیٹ الیکشن؛ آصف زرداری کا ووٹ کاسٹ کرنے اسلام آباد روانگی کا امکان
- پاکستان کا بھارتی یاتریوں کو کرتارپورصاحب آنے سے روکنے کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ
- خیبرپختونخوا کے ہیلتھ ورکرز کی کورونا ویکسی نیشن میں تیزی
- اپوزیشن ملکی مفادات کے مخالف ایجنڈے پر چل رہی ہے، عثمان بزدار
- سام سنگ نے 50 میگا پکسل کیمرا سینسر پیش کردیا
- طلاق کا ہرجانہ: خاتون نے گھریلو کام کاج اور بچے پالنے کا معاوضہ مانگ لیا!
- پی ایس ایل 6میں چوکوں، چھکوں کی برسات جاری
- جوکووک کیریئر کو طول دینے کے خواہاں
- اسپورٹس راؤنڈ اپ
- اے این پی رہنما کے اغوا کے بعد قتل کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہڑتال
- چیئرمین پی سی بی کواپنی کرسی کی فکرپڑ گئی
- رضوان قسمت کے دھنی نکلے،گیند وکٹ کو لگی مگربیلز نہ گریں
- 100ٹی20 وکٹیں، شاہین نے بمرا سے کم عمرترین بولر کا اعزاز چھین لیا
خلیجِ بنگال میں روزانہ پلاسٹک کے تین ارب ٹکڑے جمع ہورہے ہیں

دریائے گنگا کے ذریعے خردبینی پلاسٹک کے اربوں ذرات روزانہ خلیجِ بنگال میں شامل ہورہے ہیں۔ تصویر میں بہار کے مقام پر دریائے گنگا میں کچرا نمایاں ہے۔ فوٹو: نیشنل جیوگرافک
بہار: میگھنا اور برہما پترا دریا سے تشکیل پانے والے دریائے گنگا جب خلیجِ بنگال میں گرتا ہے تو روزانہ اپنے ساتھ انتہائی باریک پلاسٹک کے تین ارب سے زائد ذرات بھی سمندر تک پہنچا دیتا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں پلاسٹک کی 90 فیصد مقدار کا تعلق لباس کے ریشوں، سے ہیں جن میں ایکریلک اور ریان سرِفہرست ہیں۔ یہ تمام پلاسٹک کپڑا سازی میں استعمال ہوتے ہیں یا پھر ان کا اہم حصہ بھی ہیں۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے خصوصی گنگا پروجیکٹ پر تحقیق کے بعد بین الاقوامی ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔
2019 میں مون سون سے پہلے اور بعد میں 60،60 نمونے لیے گئے۔ پورے دریا میں دس مقامات سے پانی کے نمونے لیے گئے اور یونیورسٹی آف پلائے ماؤتھ میں ان کا تجزیہ کیا گیا۔ اس میں بنگلہ دیش کے دریائے بھولا کو بھی دیکھا گیا اور یوں اندازہ لگایا گیا کہ مجموعی طور پر ایک سے تین ارب ذرات دریا میں مل رہے ہیں اور سمندر تک پہنچ رہے ہیں۔ اس تحقیق میں بھارت کے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ، ڈھاکہ یونیورسٹی، وائلڈ ٹیم، یونیورسٹی آف ایکسیٹر اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے دریاؤں سے سمندروں یں روزنہ پلاسٹک کے 60 ارب ٹکڑے گررہے ہیں۔ اس تحقیق سے اس عمل کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ اس پلاسٹک بھرے پانی کو 65 کروڑ سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔ جن علاقوں سے پانی کے نمونے لیے گئے ہیں وہاں شہری، دیہی، زرعی، سیاحتی، مذہبی اور دیگر اہم مقامات موجود تھے۔ خیال ہے کہ یہاں سے پلاسٹک کا اخراج زیادہ ہورہا ہوگا اوراب اس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں دریا اور جھیلوں کا پلاسٹک سمندر تک جانے کے لیے روکنے والے کسی نظام کے لیے حال ہی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ یورو کی رقم بھی رکھی گئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔