قائد اعظم اور اردو

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 1 جنوری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

1947ء کا واقعہ ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد دکن) میں تمام مضامین اردو میں پڑھانے کے لیے غور و خوض ہونے لگا اور اس سلسلے میں تعلیمی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ اجلاس میں صرف ایک انگریز اور باقی تمام ماہرین ہندوستانی تھے۔ اجلاس میں تمام ہندوستانیوں نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر مختلف مسائل بیان کیے اور اردو کو اپنانے میں مشکلات بیان کر ڈالیں۔ اس موقعے پر اجلاس میں شریک واحد انگریز ممبر نے تمام اختلافات کو رد کرتے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے ہوئے تمام لوگوں کو خاموش کرا دیا کہ ’’تم لوگ کیا فضول بحث شروع کر بیٹھے ہیں! میں آپ کو بتاتا ہوں تقریباً دو سو سال پہلے برطانیہ میں انگریزی زبان کو لاطینی زبان کی جگہ بطور ذریعہ تعلیم لانے کی بات ہوئی تو وہاں بھی بالکل آپ کی طرح دلائل دیے جانے لگے تھے لیکن وقت نے سب کے سامنے حقائق کھول دیے لہٰذا آپ اس بے کار بحث کو چھوڑ دیں اور اردو زبان میں تراجم کا کام شروع کر دیں۔‘‘

کچھ ایسا ہی منظر نامہ پاکستان میں اردو کے حوالے سے چھایا ہوا ہے۔ کتنی عجیب اور احمقانہ بات بھی ہے کہ ہم اس ملک میں لبرل یا اسلامی نظام لانے کے لیے قائد اعظم کے دونوں طرح کے فرمودات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور ہر فریق اپنا نقطہ نظر درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اردو زبان کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بالکل واضح نظریات موجود ہونے کے باوجود اردو زبان کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے اپنے قائد کی برسی اور ولادت پر جشن منانے کے لیے قومی سطح پر چھٹی منانے کا بھی اہتمام کر رکھا ہے اور ہر طرف سے قائد اعظم کے نعرے بھی محبت کے دعوے بھی بلند کیے جاتے ہیں مگر ان کے دو ٹوک تعلیمات و احکامات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ 1934ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے جو دستور تیار کیا۔ بعد ازاں اسے منشور کا درجہ بھی حاصل ہوا اس میں واضح طور پر دفعہ نمبر11 میں لکھا تھا کہ اردو زبان اور رسم الخط کی حفاظت کی جائے گی۔

قائد اعظم اردو زبان پر دسترس نہ رکھنے کے باوجود انتخابی مہم کے دوران اپنی تقاریر کے آغاز اور اختتام پر چند جملے ضرور اردو زبان میں ادا کرتے تھے۔ آزادی سے قبل جب کانگریس نے ’’ہندی ہندوستان‘‘ کی مہم چلائی تو تب بھی 1935ء میں قائد اعظم نے برملا اعلان کیا کہ اس اسکیم کا اصل مقصد اردو کا گلا دبانا ہے۔ اسی طرح آپ نے 1938ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کو کسی بات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری عملاً زبان ہے ہم آئینی ضمانت چاہتے ہیں کہ اردو کے دامن کو کسی طریقے سے متاثر نہ کیا جائے۔‘‘

جب قیام پاکستان کا وقت قریب آنے لگا تو 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں ایک مرتبہ سر فیروز خان نون انگریزی زبان میں تقریر کرنے لگے تو قائد اعظم نے انھیں ٹوکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘

قائد اعظم کی نظریں اردو کی اہمیت محض قیام پاکستان سے قبل تک نہیں تھی بلکہ آزادی کے بعد بھی آپ نے پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں اظہار کیا مثلاً 1948ء میں جب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگالی زبان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو قائد اعظم نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ڈھاکہ جانے کے لیے فیصلہ کیا۔ ڈھاکہ جانے کے لیے پاکستان کے پاس صرف ڈکوٹا طیارہ تھا جس میں مشرقی پاکستان تک جانے کے لیے کلکتہ ایئرپورٹ سے ایندھن حاصل کرنا ضروری تھا لیکن قائد اعظم نے کلکتہ ایئرپورٹ اترنا پسند نہیں کیا اور جہاز میں ایندھن گنجائش سے زیادہ ڈلوا کر خطرہ مول لیتے ہوئے وقت ضایع کیے بغیر ڈھاکہ پہنچنا پسند کیا اور وہاں پہنچ کر واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہو گی۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائد اعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ عام میں 21 مارچ 1948ء کو بہت صاف صاف فرمایا کہ:’’بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔‘‘

قائد اعظم کے مذکورہ بالا الفاظ نہ صرف پاکستان کی سرکاری زبان اردو بنانے کے لیے قطعی فیصلہ سنا رہے ہیں بلکہ اس میں ان کی چھپی دور اندیشی بھی اب ظاہر ہو رہی ہے یعنی ان کا یہ کہنا کہ ’’مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے‘‘ آج بالکل ثابت ہوچکا ہے آج پاکستانی قوم نہ جانے کتنے خانوں میں تقسیم ہوچکی ہے، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کا چھوٹے سے چھوٹا گروہ بھی سر اٹھا کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ فلاں گروہ کے فلاں دن پر عام تعطیل کی گئی لہٰذا ہمارے فلاں دن پر بھی چھٹی دی جائے۔ آج ہمارے سامنے ہے کہ اس ملک میں کام کم اور چھٹیاں زیادہ ہوتی ہیں اور اس سے سب سے زیادہ تعلیمی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی متاثر ہورہے ہیں، امتحانات آئے دن ملتوی ہوتے ہیں پھر ایسے حالات میں ملک بھلا ترقی کیسے کر سکتا ہے؟قائد اعظم یقینا دور اندیش بھی تھے، تاریخ کا علم بھی رکھتے تھے اور اس آزاد ہونے والی قسم کی نفسیات سے بھی واقف تھے چنانچہ انھوں نے اپنی کرشمہ ساز شخصیت کے ساتھ ہی بہتر جانا کہ بنگالی زبان کے نام پر اٹھنے والے خطرناک فتنے کو بھی واضح طور پر پالیسی بیان جاری کرکے ختم کر دیا جائے اور آیندہ دیگر صوبوں کے لیے بھی یہ خطرناک رجحان بند کر دیا جائے کیونکہ ابھی (اس وقت) تک تو تحریک پاکستان کے ان شہیدوں کا لہو خشک بھی نہیں ہوا تھا جنہوں نے اردو زبان کے مسئلے پر ہندوؤں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ جان و مال کا نذرانہ پیش کیا اور آزادی کی تحریک میں اردو کے مطالبے کو مرکزی حیثیت دی یہی وجہ ہے کہ شیخ مجیب جیسے لیڈر کے ظہور ہونے کے ابتدا ہی میں ایک نہیں کئی مرتبہ ڈھاکہ میں عوام کے درمیان اپنا دوٹوک فیصلہ سنادیا۔ انھوں نے 24مارچ 1948ء کو ایک اور جلسے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :’’اس صوبے میں دفتری زبان کے لیے آپ لوگ جو چاہیں زبان منتخب کرسکتے ہیں البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ ہے اردو‘‘ آج ہمارے صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کی کمی قائد اعظم کے ارشادات کو ثبت کررہی ہے کہ اگر ہم اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیتے تو آج صوبوں کے درمیان یوں فاصلے نہ ہوتے۔

کتنی افسوسناک بات ہے کہ آج ہم سیاسی مسئلوں پر ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بھی لگاتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کو گرفتار اور سخت سے سخت سزا دینے کا پر زور مطالبہ بھی کرتے ہیں مگر … مگر … مگر یہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں شق نمبر 251میں درج ہے۔’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور تاریخ اجرا سے پندرہ سال کے عرصے کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔‘‘آئین کی اس کھلی خلاف ورزی پر ہمارے سیاسی رہنما کیوں خاموش ہیں؟ اور وہ لوگ کیوں خاموش ہیں جو اس ملک کے نظام طے کرنے سے متعلق صبح و شام قائد اعظم کے فرمودات کے حوالے دیتے ہیں؟قائد اعظم کے ارشادات واضح کررہے ہیں کہ اس قوم کو متحد کرنا ہے تو اردو کو سرکاری زبان بلا تاخیر بنانا ہوگا، اگر ہم واقعی اس بکھرتی قوم کو متحدہ کرنا چاہتے ہیں تو آیئے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔