تعلیمی نقشہ بدلنے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  اتوار 24 جنوری 2021
ارباب تعلیم سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے پالیسی پر عمل کے لیے ابھی مزید ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ فوٹو: فائل

ارباب تعلیم سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے پالیسی پر عمل کے لیے ابھی مزید ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ فوٹو: فائل

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ اس سال کسی بھی صورت بغیر امتحانات طلبہ کو پروموٹ نہیں کیا جائے گا۔ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کی زیر صدارت محکمہ تعلیم کی اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں یکم فروری سے پرائمری، مڈل اور سیکنڈری کلاسز کھولنے پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ امتحانات کے شیڈول اور سلیبس سے متعلق بھی مشاورت کی گئی۔

اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ کورس کو مزید کم نہیں کرسکتے، چاہے امتحانات کو ری شیڈول کیوں نہ کرنا پڑے، ہمیں غیرمعمولی حالات کو مدنظر رکھ کر غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے۔ کورونا کے باعث ہمارا تعلیمی شیڈول بری طرح متاثر ہوا ہے، ہمیں دوبارہ شیڈول کے مطابق آنے میں وقت لگے گا، نئے تعلیمی سال سے متعلق بھی حالات کو دیکھ کر ہمیں پلان کرنا ہوگا۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ نصاب کم کرنے کے باوجود نصاب نہ پڑھایا جاسکے تو یہ زیادتی ہوگی۔ شاعر کہتا ہے:

عقدۂ زیست کتابوں سے کہیں سلجھاہے

بے خبر رمز شناسِ نگہہ ناز تو بن

اس حقیقت سے کسی کو شاید انکار نہیں ہوگا کہ ملک کو کورونا وائرس کے باعث شدید تعلیمی مسائل کا سامنا ہے، اسی دوران ملک میں یکساں نصاب کے نفاذ کا تاریخ ساز چیلنج بھی ملکی ماہرین تعلیم کو درپیش ہے، وزیر تعلیم شفقت محمود اور تمام صوبائی وزرائے تعلیم بھی ایک نئے امتحانی کلچر، لسانی مشکلات، معیار تعلیم اور طبقاتی تدریس کی زنجیروں سے نجات کے نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ تعلیمی نشاۃ ثانیہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خدا کرے کہ حکومت جس طرز پر قومی شناخت کے لیے تعلیم کو فکری بنیاد مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اسے وہ اہداف حرف بہ حرف حاصل ہوں۔

نئی نسل کو ذہنی غلامی سے نجات پانے کے لیے جو موقع ملا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جس سنجیدگی، محنت، علمی تحقیق اور معلومات و اطلاعات کے نئے انقلابات اور شعور سے لگن اور تہذیبی مطابقت کا سامان کرنے کی ضرورت ہے وہ محض تدریسی میکانیت تک محدود نہیں بلکہ یہ قومی سوچ کی تبدیلی کا ایک بیڑا ہے جو ارباب حکومت نے اٹھایا ہے اب اسے کمٹمنٹ کے ساتھ ہدف تک پہنچانا بھی ہے۔ کام بلاشبہ بقول شخصے ’’نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔‘‘

ہمارے نظام تعلیم میں امتحانات کی حیثیت طلبا وطالبات کے تعلیمی ذوق و شوق، تدریسی عمل، علم پروری، مطالعہ اور ریسرچ کے نکتہ عروج کی سمجھی جاتی ہیں، طالب علم امتحان کے درجہ بہ درجہ زینہ پار کر کے اعلیٰ تعلیم کی اسناد حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اب نوآبادیاتی دور نہیں ایک غیر طبقاتی عہد کے مائنڈ سیٹ سمیت قومی امنگوں کی ترجمانی کا نیا باب تاریخ کے سامنے پیش کرنا ہے اور مورخین، ماہرین تعلیم اور ارباب اختیار کے سامنے اس وقت تعلیم و تدریس کا سب سے اہم سوال معیار تعلیم اور تدریس و لسانیاتی یکجہتی، مادری زبان اور ملکی تعلیم کی اساسی قدروں کی تفہیم کا ہے۔

بڑے سوالات کے انبار لگے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کی لائی ہوئی تباہی کثیر جہتی ہے، اس وبا نے نہ صرف سیاست و معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ زبان کی تدریس، تعلیم کے معیار، امتحانات کے تقدس و حرمت کو بھی داغدار کیا ہے، ہم ایک لسانی افراتفری اور جعلسازی سے نکلنے والے ہیں، ہمیں اپنی پرائمری، ثانوی تدریس کے اہداف تک پہنچنا ہے، اردو اور انگریزی سمیت دیگر قومی، علاقائی اور مادری زبانوں میں تدریس کے پیراڈائم سیٹ کرنے ہیں او ماہرین کے طے کردہ اصولوں اور تقاضوں کو درست کرکے ایک نئے تعلیمی سفر کا شفاف آغاز کرنا ہے۔

دقیانوسی اور فرسودہ طرز تدریس کو چھوڑ کر تازہ اور قومی اقدار کے تناظر میں تاریخ و سماج، معاشیات، قومی اقدار اور نصاب کو خوش آمدید کہتے ہوئے جدید تعلیمی تقاضوں کے مطابق اپنے اسکولوں، کالجز اور جامعات میں نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی جستجو کرنا ہے۔ اقدار اور فکری تہذیب کی آبیاری کے لیے ’’اڑنے سے پہلے پرفشاں‘‘ ہونے کی صدا پر توجہ دینی ہے۔ ملکی تعلیمی منظرنامہ پر نگاہ ڈالنا ہے، سوالات کی نزاکت اور نظام تعلیم کو درپیش مسائل کے حل میں تعاون کے امکانات پر سوچنا ہے۔ سب سے بنیادی بات تعلیم کی ہمہ جہتی دریس کے لیے مادری زبان کی اہمیت کا مسئلہ حل کرنا ہے جس پر ماہرین تعلیم زور دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے بچہ سب سے اچھی تعلیم مادری زبان میں سیکھتا ہے، اس جملہ میں جہان معانی کا دریا بہتا ہے، نصاب یکساں ہو، فرسودہ نہ ہو، صوبوں کی لسانی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو جو ہر زبان بولنے والے طالب علم کی تربیت و تعلیم کی تشفی کرسکے، ملک کے چاروں صوبوں میں بیشمار زبانیں بولی جاتی ہیں، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں کثرت زبان کے پیش نظر بچہ کی عمر، ذہنی صلاحیت اور استعداد کا خیال رکھا جائے، بچہ بستہ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مادر علمی دھرتی سے جڑی زبان کی تاثیر سے ترقی کرتی ہے، ملک کے کچھ صوبوں میں مقامی یا صوبائی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

دیگر صوبوں میں اردو، انگریزی یا پھر دونوں زبانوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں ہی زبانوں کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں یہ بحث ہوتی ہے کہ اگر انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں ہے تو کیا اسے نصاب میں شامل کرنا ضروری ہے؟

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو زبان کی طرح انگریزی زبان کو بھی ابتدائی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے، جب کہ کچھ دیگر افراد کا خیال ہے کہ انگریزی زبان کو چھٹی جماعت کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے تاکہ اس وقت تک بچے کی گرفت اردو زبان اور اپنی مادری زبان پر مضبوط ہوجائے۔ ماہرین کے مطابق ذریعہ تعلیم کے حوالے سے ہماری پالیسی ایک ادھیڑ بن کا شکار ہے۔ ہم اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکے کہ ہمیں اپنے بچوں کو کون سی زبانیں پڑھانی ہیں اور انھیں کس زبان میں کب اور کس طرح تعلیم دینی ہے۔

ہم نے ذریعہ تعلیم اور زبان سکھانے کو آپس میں ملا دیا ہے۔ اگر ہم سائنس کا مضمون انگریزی میں پڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو پہلے سے انگریزی آتی ہو۔ ایک بچے سے یہ امید رکھنا کہ وہ کوئی مضمون سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو بھی سیکھے جس میں اسے تعلیم دی جا رہی ہے تو یہ اس کو اور اس کے اساتذہ کو مشکلات اور ناکامی کے راستے پر ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے۔

تعلیم کے حوالے سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو تحقیق سے ثابت ہیں۔ بچے اس صورت میں بہتر طور پر سیکھتے ہیں جب انھیں اسی زبان میں تعلیم دی جائے جسے وہ آسانی سے سمجھتے ہوں۔ یہ ایک ظاہری سی بات ہے لیکن پھر بھی اس پر زور دیا جانا چاہیے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق ابتدائی برسوں میں ذریعہ تعلیم وہ زبان ہوسکتی ہے جسے بچے گھر میں استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے  علاقائی یا مقامی زبانوں سے بھہ فایدہ اٹھایا جانا چاہیے ۔ بچے کئی زبانوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

اگر کوئی بچہ کوئی زبان سیکھنا چاہے تو اسے یہ زبانیں ایک مضمون کے طور پر پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن ابتدائی برسوں سے لے کر اس وقت تک کہ جب بچہ دیگر زبانوں کے حوالے سے مشکل کا سامنا نہ کرے، اس کا ذریعہ تعلیم اس کی مادری زبان ہی ہونا چاہیے۔ والدین کی ترجیحات پر ہونے والی تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ اکثر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مہارت رکھتا ہو۔ ان دونوں زبانوں کو ہی معاشرتی اور معاشی ضامن کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر انگریزی زبان کو معاشرتی اور معاشی ترقی کے حوالے سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے تجربات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے والدین کے خیالات غلط نہیں ہیں۔

جامعات کے طلبا کے حوالہ سے سینئر اساتذہ اور ماہرین مادر علمی میں جعل سازی، فراڈ، غیر اخلاقی وارداتوں اور چربہ نویسی کی الم ناک داستانیں سناتے ہیں، وہ آن لائن تعلیم کی کمزور بنیادوں سے مطمئن نہیں، ان کا کہنا ہے کہ جو آن لائن تعلیم اور مجموعی طور پر ملک کے غیر سرکاری تعلیمی ادارے غیر معیاری تعلیم دیتے ہیں ان سے ملکی تعلیمی معیار کیسے بلند ہوگا، خطے میں دشمن ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے، دلی کے وزیراعلیٰ کیجری وال نے تعلیمی اصلاحات کا قابل دید سیناریو اپنی عملداری میں متعارف کرایا۔

انھوں نے سرکاری اسکولوں کا وقار بڑھانے  کے اقدامات کے ذریعے ہائی پروفائل نجی اسکولوں سے طالب علموں کو سرکاری اسکولوں کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی، کیجری وال اور ان کے ساتھیوںکے انداز عمل کی روشنی میں ایک تعلیمی ٹرانسفارمیشن کرکے تعلیم اور سماجی تبدیلی کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ دنیا کا ہر معاشرہ ہر حکومت اسی ماڈل پر پیش رفت کرسکتی ہے، ملکی تعلیمی منظرنامہ میں بھی بنیادی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں، ہمارے سرکاری اسکولوں کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے۔

ارباب تعلیم سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے پالیسی پر عمل کے لیے ابھی مزید ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے، پالیسی میں ان چیزوں کو واضح ہونا چاہیے کہ ابتدائی تعلیم مقامی زبان میں دی جائے اور اس دوران بچوں کو دیگر زبانیں ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جائیں، اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو ذریعہ تعلیم انھی میں سے کسی زبان کو بنا دیا جائے۔ ہمیں امتحان، تدریس، نصاب اور فکر کی تبدیلی جیسے بڑے ایشوز کا سامنا ہے، ہمیں تعلیمی انقلاب کی طرف بڑھنا ہے اور ذہنی غلامی سے نکلنے کے لیے نئی نسل کو تیار کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔