آپریشن سے بچوں کی پیدائش میں اضافہ

شبیر احمد ارمان  اتوار 24 جنوری 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ایک عرصے سے آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اس ضمن میں نجی اسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز کا کاروبار چمک رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ہر پانچواں بچہ آپریشن کے ذریعے دنیا میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے والدین بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کی ڈلیوری کے ریکارڈ کے مطابق کراچی کے صرف 8 نجی و سرکاری اسپتالوں میں یومیہ 447 میں سے 114 بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔

شہر کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں یومیہ اوسطاً 200 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے جن میں آپریشن کے ذریعے پیدا ہونیوالے بچوں کی تعداد اوسطاً 38 ہے۔ اسی طرح دوسرے اسپتال کے گائنی وارڈ اور ایمرجنسی میں روزانہ اوسطاً 98 بچے پیدا ہوتے ہیں، جن میں 18 خواتین کو آپریشن کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح تیسرے اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 34 میں سے 18 حاملہ خواتین کو سرجری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چوتھے سوشل ویلفیئر اسپتال میں 8 میں سے 2 جب کہ پانچویں اسپتال میں اوسطاً 40 میں16 بچے آپریشن سے پیدا ہونا معمول بن گیا ہے۔ ایک میٹرنٹی اسپتال میں 45 میں سے 13 بچوں کی پیدائش کے دوران حاملہ خواتین کا آپریشن کیا جاتا ہے اسی طرح ایک چیریٹی اسپتال میں بھی 17 میں سے 6 بچے آپریشن سے پیدا ہوتے ہیں جنکی تعداد 26 فیصد ہے۔

مذکورہ اسپتالوں کے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر پانچویں بچے کی پیدائش سرجری سے ہو رہی ہے اور اس شرح میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہے جسکے سبب نجی اسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز کا کاروبار زوروں پر ہے بلکہ یہ شبہ بھی بیان و ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نجی اسپتال و میٹرنٹی ہومز کئی آپریشن محض زیادہ فیس کے لالچ میں بھی کرتے ہیں جو معمول کی ڈلیوری سے ممکن نہیں ہوتے۔

آپریشن سے زچگی کی وجہ سے جہاں خواتین کو صحت کے حوالے سے کئی کئی ماہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے وہاں دوسری جانب والدین کو نارمل کے بجائے سرجری کی صورت میں اضافی اخراجات کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے جب کہ سرکاری اسپتالوں میں سرجری کی کوئی فیس نہیں ہوتی لیکن بچے کی پیدائش کے دوران آپریشن کے لیے سامان (آلات جراحی) ٹیسٹ اور سرکاری طور پر دی جانیوالی ادویات کی عدم دستیابی کی صورت میں مریضہ کے ساتھ آنیوالوں کو خریدنا پڑتی ہیں۔ جب کہ نجی اسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز کے معیارکے مطابق فیس لی جاتی ہے جو ہزاروں روپے سے 2 لاکھ روپے تک فیس ہوتی ہے جب کہ پوش علاقوں میں اس سے بھی زیادہ فیس لی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں ہر اسپتال و میٹرنٹی ہومز میں مریض کے لیے خون کی بوتلیں ہر صورت منگوائی جاتی ہیں اور آپریشن میں استعمال نہ ہونے کی صورت میں بھی جمع کرلی جاتی ہیں، تاہم خون کا انتظام کرنے میں مریضہ کے رشتے داروں کوکافی جتن کرنے پڑتے ہیں، جب کہ بڑے اسپتالوں میں خون فراہمی کی مد میں الگ سے چارجز لیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب پرکشش فیسوں کو دیکھتے ہوئے زچگی میں اتائی ڈاکٹروں کی بھی دلچسپی بڑھ گئی ہے اور شہرکراچی کی بیشتر کچی اور غریب آبادیوں میں انھوں نے میٹرنٹی ہومز قائم کرلیے ہیں جب کہ کئی متوسط علاقوں کے بنگلوں میں بھی میٹرنٹی ہومزکھل گئے ہیں، جو بڑے اسپتالوں کے ڈاکٹرز سے فیس طے کرکے مریض سے اضافی کمیشن وصول کرتے ہیں۔

نجی طور پر قائم کیے گئے میٹرنٹی ہومز اور نجی اسپتالوں میں اتائی ڈاکٹرز زچہ کا الٹراساؤنڈ کروا کر ڈراتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے وقت زچہ جان سے جا سکتی ہے جسکے بعد وقت سے پہلے غیر ضروری ادویات کا استعمال شروع کیا جاتا ہے جس سے آپریشن کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے خاص طور پر کچی آبادیوں میں قائم غیر قانونی میٹرنٹی ہومز اور نجی اسپتال اپنے کاروبار کی خاطر اس طرح کے آپریشن کرتے ہیں۔ ان نجی میٹرنٹی ہومز میں الٹرا ساؤنڈ کا کوئی ماہر نہیں ہوتا جسکی وجہ سے غلط رپورٹ دینے پر زچہ اور بچہ دونوں کو خطرات سے دوچار کیا جاتا ہے۔

بعض میٹرنٹی ہومز میں وقت سے پہلے اس لیے بھی آپریشن ہوتے ہیں کہ مریض سے حمل کے بارے میں درست معلومات بھی حاصل نہیں کی جاتیں جنکی وجہ سے بعض اوقات بچے کی موت واقع ہو جاتی ہے یا پھر اس کی صحت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جسکی بنیاد پر بچے کو کئی روز تک انکوبیٹر میں رکھ کر بھاری فیس وصول کی جاتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ایک بچے کی پیدائش آپریشن سے ہونے کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش بھی آپریشن سے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جب کہ آپریشن کے بعد دائمی درد، سستی اور لیٹ ریکوری جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آپریشن کرانے کے بعد بعض خواتین میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ فیملی پلاننگ پروگرام کے تحت دی جانیوالی ادویات بچے کی پیدائش میں پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہیں جب کہ ان ادویات کے زیادہ استعمال سے خواتین میں شوگر، بلڈ پریشر اورکینسر بھی ہو سکتا ہے۔

ایک گائنی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ 2 مرتبہ آپریشن ہونے کے بعد زچگی کا عمل روکنے کی ہدایت کی جاتی ہے لیکن والدین کی خواہش پر اب 4 آپریشن بھی ہونے لگے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں کئی طبی مسائل کا خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے، قریبی رشتے داروں میں شادی ہونے سے اس بات کا تعلق نہیں کہ بچے نارمل زچگی سے پیدا نہیں ہونگے، انھوں نے اس الزام کو مسترد کیا کہ حاملہ خواتین کو ایسی ادویات دی جاتی ہیں جس سے بچے نارمل ڈلیوری سے پیدا نہیں ہو سکتے، ان کا کہنا تھا کہ زچگی کے دوران صرف کیلشیم کی گولیاں اور طاقت کی ادویات دی جاتی ہیں تاہم اگر زچہ پھلوں کا استعمال زیادہ کریں تو ادویات استعمال کرنے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے آپریشن سے پیدا ہونے کی وجوہات میں سے ایک فیملی پلاننگ پروگرام کے تحت دی جانے والی ادویات ہیں۔ مذکورہ پروگرام میں ٹیکے اورگولیاں مفت دی جاتی ہیں جس کے تحت ادویات استعمال کرنے والوں کوکئی سال تک مفت علاج بھی کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بچے کی ولادت کا سرجری سے ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

کچی آبادیوں میں قائم میٹرنٹی ہومز اور میڈیکل اسٹور والے ایسی ادویات دیتے ہیں جوکہ دوران حمل نہیں دی جانی چاہئیں، جس کی وجہ سے بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کٹے ہوئے ہونٹ اور دیگر اعضا میں نقائص کی بنیادی وجہ وہ ٹیکے اور گولیاں ہیں جوکہ حاملہ خواتین کو استعمال نہیں کرنی چاہیئیں۔

ذرایع کے مطابق اتائی ڈاکٹرز حاملہ خواتین کو دوران حمل ممنوع ادویات بھی دیتے ہیں جس کی وجہ سے زچہ کو وقت سے پہلے آپریشن کرانا پڑتا ہے اس کے علاوہ بعض ادویات سے بچے کا وزن بڑھ جاتا ہے جس سے اس کی نارمل ڈلیوری ممکن نہیں رہتی، کہیں یہ نااہل ڈاکٹروں کی کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کہیں یہ جان بوجھ کرکیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔