50 کروڑروپے ہرجانے کا دعویٰ ؛ علی ظفرکوجواب جمع کرانے کے لیے مہلت مل گئی

ویب ڈیسک  پير 25 جنوری 2021

علی ظفر کو اس طرح کے ٹوئٹ کرنے سے روکا جائے، درخواست گزارکا موقف

علی ظفر کو اس طرح کے ٹوئٹ کرنے سے روکا جائے، درخواست گزارکا موقف

 کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے 50 کروڑ روپے ہرجانے کا دائردعویٰ پر گلوکار علی ظفر کے وکیل کو جواب جمع کرانے کے لیئے مہلت دے دی۔

سندھ ہائیکورٹ میں گلوکارعلی ظفر کیخلاف 50 کروڑروپے ہرجانے کا دائر دعویٰ سے متعلق سماعت ہوئی۔ گلوکارعلی ظفر کی جانب سے مزمل سومروایڈووکیٹ نے وکالت نامہ جمع کرادیا۔ لینا غنی کے وکیل نے موقف دیا کہ علی ظفراس طرح کے ٹوئٹس نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں تو درخواست واپس لے لیں گے۔ علی ظفر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ اس طرح کا کوئی ٹوئٹ کیا ہی نہیں، درخواست کا جائزہ لے کر جواب دیں گے۔

درخواستگزارکے وکیل نے موقف دیا کہ علی ظفر کو اس طرح کے ٹوئٹ کرنے سے روکا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے 15 فروری تک کی مہلت دے رہے ہیں، جواب جمع کرائیں۔ آئندہ سماعت پر درخواستگزار کے وکیل کو سن کر حکم امتناع جاری کرسکتے ہیں۔ عدالت نے دعوے کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔

دعویٰ سوشل ایکٹیویسٹ لینا غنی کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس میں موقف اپنایا گیا کہ علی ظفر نے پہلی مرتبہ 2014 لندن میں پاکستانی فیشن کے دوران ہراساں کیا۔ علی ظفر نے جون 2014 میں دو مرتبہ پھر اس طرح نازیبا گفتگو کی۔ علی ظفر نے جولائی 2014 میں بہت بڑی فرم میں کام کی آفربھی جس پر میں شائستگی سے انکار کردیا۔ 19 مارچ 2018 کو معروف سنگرمیشا شفیع  نے بھی علی ظفر پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کئے تھے۔

درخواستگزار نے اس حوالے سے اپنی بہن اور دوستوں کو بھی آگاہ کیا۔ علی ظفر کا 20 دسمبر 2020 کا ری ٹوئٹ اور 22 دسمبر کا ٹوئٹ جھوٹ پرمبنی ہے۔ علی ظفر کے ان ٹوئٹس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا جائے۔ دونوں ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ علی ظفر مہم میں لینا غنی کا ہاتھ ہے۔

دونوں ٹوئٹس لینا غنی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کی نظروں میں نیچا دیکھا نے کے لئے کئے گئے تھے۔ قرار دیا جائے کہ علی ظفر کیخلاف درخواستگزار کسی آن لائن کمپین کا حصہ نہیں ہے۔ علی ظفر کو میرے خلاف سوشل میڈیا سمیت آن لائن، ٹی وی چینلز پر مواد اور خبرین چھپوانے سے روکا جائے۔ خدشہ ہے کہ ایسے مواد اور خبروں سے مجھے نیچے دیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔