پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

محمد کامران کھاکھی  منگل 26 جنوری 2021
یہ جرمانہ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والی ادھار رقم کے برابر ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ جرمانہ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والی ادھار رقم کے برابر ہے۔ (فوٹو: فائل)

جیسے 2016 میں پانامہ کا ہنگامہ برپا تھا، آج کل براڈشیٹ کا بول بالا ہے۔ جس پر ہمارے ملک کو جرمانہ ہوا۔ جو ادا بھی ہوگیا اور ہم ابھی تک یہ نہیں معلوم کرسکے کہ یہ کیوں ہوا؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہمیں ہاتھ پیر چلانے کی فکر ہوتی ہے۔

2000 میں ایک غیر معروف کمپنی سے کیا گیا خفیہ معاہدہ جسے 2003 میں ہم اپنی طرف سے ختم بھی کرچکے تھے۔ اس معاہدے کے تحت دو سو لوگوں کے اثاثے ڈھونڈنے تھے۔ مگر یہ کمپنی کسی ایک کے بھی اثاثے نہ ڈھونڈ سکی اور پھر بھی براڈشیٹ بڑے آرام سے ساڑھے چار ارب لے گئی اور ہم بیٹھے لکیر پیٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ہماری ہی عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ اس جرمانے کی بنیاد بنی۔ یعنی جس نیب نے اس کمپنی سے معاہدہ کیا تھا اور اس میں یہ بھی مان لیا کہ ہم یہ معاہدہ ختم ہی نہیں کرسکتے، پھر بھی اسے تین سال بعد اپنی طرف سے ختم بھی کردیا۔ پھر خود ہی اس کمپنی کو کیس جیتنے کےلیے مواد بھی دیا اور پاکستان میں جس کیس کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی، لندن میں اسی کو جھٹلانے کی کوشش بھی کر ڈالی۔ مگر پھر بھی جرمانہ ہوگیا۔ چلو ہوگیا تو ہوگیا، مگر حکومت نے بھی بڑی پھرتی دکھائی اور لندن عدالت کے پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ کو ضبط کرنے کے فیصلے سے پہلے ہی اس اکاؤنٹ میں پیسے بھیج دیے تاکہ ان کا کام آسان ہوسکے اور پیسے ادا ہوسکیں۔ مطلب اس کمپنی سے اتنی ہمدردی آخر کسی نہ کسی کو تو ہے۔ خیر رات گئی بات گئی، مگر ہم آگے کی نہیں سوچیں گے۔

موجودہ حکومت کی اہلیت ایک طرف، مگر ان کی اس بات میں کچھ نہ کچھ تو صداقت ہے کہ پچھلی حکومت ذمے دار ہے کیونکہ اتنے اہم معاملات کےلیے کوئی تیاری کیوں نہیں کی گئی اور انہیں حل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟

بات بڑھی تو بڑھتی جائے گی مگر میرا یہاں موضوع براڈشیٹ نہیں بلکہ ایک اور بہت ہی خطرناک بلا ہے، جو پر پھیلائے ہمارے ملک کے اوپر حملہ کرنے کےلیے تیار ہے، مگر کوئی بھی اس کو روکنے کےلیے تیار نہیں دکھائی دیتا۔ کیوں کہ حملہ ہوگا، نقصان ہوگا تو ہم چیخنا شروع کریں گے ناں۔ یہ تو ہماری عادت ہے کہ تنقید کریں گے اصلاح نہیں۔ اس بلا کا نام ہے ’’ریکوڈک کیس‘‘۔ جی ہاں ریکوڈک کیس میں بھی پاکستان پر ہرجانہ ہوچکا ہے، جس کی ادائیگی کورونا کا سہارا لے کر ہم نے موخر کرائی ہوئی ہے اور وہ جرمانہ براڈشیٹ سے بہت زیادہ ہے اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔

ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں دنیا کی پانچویں بڑی سونے اور تانبے کی کان ہے۔ ریکوڈک کیس کی تاریخ سادہ اور عام فہم زبان میں یہ ہے کہ یہ معاہدہ بلوچستان حکومت اور معدنیات نکالنے والی کمپنی کے مابین 1993 میں ہوا مگر اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تو 1998 میں پھر سے ایک معاہدہ ہوا، مگر نتائج صفر۔ پھر 2000 میں یہ معاہدہ ایک آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی ٹی سی سی کے ساتھ انہی شرائط پر ہوا۔ مگر اس پر بحث 2006 میں شروع ہوئی، جب بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اس معاہدے کے خلاف درخواست دائر کی، جو کہ 2007 میں خارج کردی گئی۔ اس کے بعد عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو اسی بلوچستان اسمبلی کے رکن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ جس کے بعد کئی وکلا نے بھی پٹیشنز دائر کیں۔

2008 میں حکومت کی تبدیلی ہوئی تو نئی صوبائی حکومت نے 2009 میں اس معاہدے کو ختم کردیا۔ جس پر ٹی سی سی نے 2010 میں بلوچستان حکومت کو نئی فزیبلیٹی رپورٹ پیش کردی اور فروری 2011 میں کان کنی کے لیے ایک نئی درخواست بھی حکومت کو بھیج دی۔ جسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کردیا۔ فروری 2011 میں ہی سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کو ریکوڈک کیس سے متعلق تمام دستاویزات جمع کرانے کا حکم دیا اور 2013 میں یہ فیصلہ بھی دیا کہ 1993 میں ہونے والا یہ معاہدہ آئین سے متصادم اصولوں کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے۔ اس لیے عدالت نے اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کردیا۔

مگر سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ عالمی عدالتوں میں اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی نومبر 2011 میں ٹی سی سی نے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (اِکسڈ)، جو کہ سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک ایسی عدالت ہے جو کاروباری تنازعات میں ثالثی کا کام کرتی ہے، میں کیس دائر کردیا تھا اور یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے اس کا وقت اور پیسہ ضائع ہوا ہے، چنانچہ پاکستان کو اس ضیاع کا ہرجانہ ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ جس پر 2019 میں عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا اور حکومتِ پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ یہ جرمانہ عدالت کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے، جوکہ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والی ادھار رقم کے برابر ہے۔

پاکستان نے اس جرمانے کے خلاف یہ کہہ کر اپیل دائر کردی کہ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی سے پاکستان کی کورونا کے خلاف لڑائی متاثر ہوگی اور عالمی عدالتی ٹربیونل نے اس فیصلے پر عمل درآمد فی الحال روک دیا ہے۔ اب اس سال اس کا فیصلہ ہوگا۔ مگر کیا ہم اس فیصلے کو کالعدم کروا سکیں گے؟ اس کےلیے کیا تیاری ہورہی ہے یا پھر اتنی بڑی رقم بھی عوام پر ایک بوجھ بنے گی، جو کہ پہلے ہی قرضوں میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں اور پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔