’نوسو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘، پریانکا چوپڑا کو برسوں بعد کس بات پر پچھتاوا ؟

ویب ڈیسک  بدھ 27 جنوری 2021
جنوبی ایشیا میں رنگت گوری کرنا اس قدر معمول بن گیا تھا اور یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہا تھا کہ ہر کوئی یہ کررہا تھا، پریانکا چوپڑا

جنوبی ایشیا میں رنگت گوری کرنا اس قدر معمول بن گیا تھا اور یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہا تھا کہ ہر کوئی یہ کررہا تھا، پریانکا چوپڑا

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا کو اپنی اُس برسوں پرانی حرکت پر اب پچھتاوا ہورہا ہے جسے انہوں نے نہ صرف اپنے کیریئر میں آگے جانے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا بلکہ اس سے کروڑوں بھی کمائے اور آج جب محترمہ کے پاس نام، پیسہ، دولت، شہرت ہر چیز موجود ہے تو آج انہیں پچھتاوا ہورہا ہے کہ انہیں رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات میں کام نہیں کرنا چاہئے تھا۔

اداکاری اور گلوکاری کے ساتھ اب پریانکا چوپڑا مصنف بھی بن گئی ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ان فنشڈ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں پریانکا چوپڑا نے بچپن سے لے کر ابھی تک کی یادیں اوراپنے دو دہائیوں پر مشتمل کیریئر کے کچھ ان کہے راز بتائے ہیں۔

پریانکا چوپڑا نے کتاب میں بتایا ہے کہ انہیں ماضی میں رنگ گورا کرنے والے اشتہارات میں کام کرنے پر اب افسوس ہے۔ پریانکا نے کہا جنوبی ایشیا میں رنگت گوری کرنا اس قدر معمول بن گیا تھا اور یہ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہا تھا کہ ہر کوئی یہ کررہا تھا۔

یہاں تک کہ آج بھی اداکارائیں یہ کررہی ہیں۔ لیکن یہ خوفناک ہے اور یہ میرے لیے بھی خوفناک تھا، وہ چھوٹی لڑکی جو چہرے پر ٹیلکم پاؤڈر لگاتی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ گہری رنگت خوبصورت نہیں ہوتی۔

پریانکا چوپڑا کا کہنا ہے کہ انہیں ماضی میں رنگ گورا کرنے والے اشتہارات میں کام کرنے پر اب افسوس ہے۔ پریانکا کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں تقریباً دو دہائی کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اور ان دو دہائیوں میں انہوں نے وہ سب کچھ حاصل کیا جس کی تلاش میں ایک لڑکی شوبز انڈسٹری میں آتی ہے بلکہ وہ تو بالی ووڈ سے ہالی ووڈ تک کا سفر بھی طے کرچکی ہیں۔

اپنے کیریئر میں سب کچھ حاصل کرنے کے بعد اب انہیں افسوس ہورہا ہے کہ انہیں رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات میں کام کرنا نہیں چاہئے تھا۔ ان کا یہ پچھتاوا اس وقت کہاں گیا تھا جب وہ پیسہ اور شہرت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے اشتہارات میں کام کررہی تھیں۔

پریانکا کو دو دہائیوں بعد آج اس چیز کا پچھتاوا ہے کہ انہوں نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہارات میں کام کیا، تو شاید اقوام متحدہ میں امن کی سفیر ہوتے ہوئے بھی جنگ کی حمایت کرنے، بھرے مجمعے میں ایک پاکستانی خاتون کو چلاکر خاموش کروانے اور دہلی میں مسلم کش فسادات اور مساجد کو جلانے پر خاموشی اختیار کرنے پر تو شاید انہیں بڑھاپے میں جاکر افسوس ہوگا اور اس وقت ان کے افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پریانکا چوپڑا کے اوپر تو وہی مثال فٹ بیٹھتی ہے’’نو سو چوہے کھا کربلی حج کو چلی۔‘‘

واضح رہے کہ 2015 میں بھی پریانکا چوپڑا نے اس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میری تمام کزنز گوری چٹی تھیں، صرف میں ہی تھی جس کی رنگت گہری تھی۔ کیونکہ میرے والد کی رنگت گہری تھی۔ میری پنجابی فیملی مذاق میں مجھے کالی کالی کالی کہتی تھی۔ اور 13 سال کی عمر میں، میں رنگ گورا کرنے والی کریم اپنے چہرے پر لگانا چاہتی تھی کیونکہ میں اپنی رنگت تبدیل کرنا چاہتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔