صوبوں اور وفاق کی بحث

مزمل سہروردی  بدھ 27 جنوری 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ایک عجیب سوال سننے میں آرہا ہے کہ کیا کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی وفاقی وزیر کے سامنے جوابدہ  ہے یا نہیں۔ وفاقی حکومت کے وفاقی وزیر یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بطور صوبائی وزرائے اعلیٰ وفاقی وزرا کو جوابدہ ہیں۔ اس ضمن میں آئینی نہیں اخلاقی دلائل کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ تو اپنے صوبے کے عام شہری کو بھی جوابدہ ہیں، ایسے میں کسی وفاقی وزیر کے سامنے جوابدہ ہونا کونسی غلط بات ہے۔ ادھر دوسرا موقف یہ ہے کہ کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ صرف صوبائی اسمبلی کو جوابدہ ہے۔ جس نے انھیں وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے۔

یہ بحث تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان حال ہی میں ہونے والی تلخی سے شروع ہوئی ۔ یہ بات کراچی کے منعقدہ ایک اجلاس کے دوران ہوئی۔ وفاقی وزیر علی زیدی اپنے سوالوں کا جواب نہ ملنے پر اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔بعدازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ایک احتجاجی خط بھی لکھا لیکن میڈیا کو جاری نہیں کیا۔ تا ہم کسی طرح یہ بات میڈیا میں آگئی۔

سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت اس  بات کو میڈیا میں لانا چاہتی تھی، اس لیے خط اور جواب دونوں میڈیا کو جاری کیے گئے۔ مراد علی شاہ بھی خط  میڈیا میں جاری کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ویسے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو وزیر اعظم کو خط لکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

وہ سندھ اسمبلی میں قرارداد بھی لا سکتے تھے اور اسے منظور بھی کروا سکتے تھے۔ صوبائی کابینہ بھی اس معاملے میں قرارداد پاس کر کے وفاقی حکومت کو بھجوا سکتی تھی۔ یوں معاملہ میڈیا میں بھی آ جاتا اور صوبائی خو د مختاری کے تناظر میں بات بھی ہو سکتی تھی، اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر نہ صرف انھیں عزت دی بلکہ انھیں بڑا بھی مانا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس خط کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا بلکہ مل کر چلنے کی راہ نکالنی چاہیے تھی۔

یہ تاثر پیدا کیا جانا چاہیے تھا کہ کراچی کی ترقی اور مسائل کے حل کے لیے سب مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے اگر وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ کو اسلام آباد آنے کی دعوت دیتے اور اپنے کراچی کے ارکان پالیمنٹ اور وزراء کو بھی بلاتے اور کراچی کی ترقی کے لیے روڈ میپ پر بات چیت کرتے تو وفاقی حکومت کی ساکھ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کے نظریے کے مطابق پاکستان میں ایک مضبوط وفاقی نظام ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھی صوبائی حکومتوں کے ساتھ وفاق کا تعاون ہونا ضروری ہے۔

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ حکومت  کے درمیان آغاز سے مسائل رہے ہیں۔ پنجاب میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اس لیے یہاں کوئی مسائل نہیں ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومت ملکر کام کر رہی ہیں۔ کے پی میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہاں بھی کوئی مسائل نہیں ہیں۔ بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے،وہاںتنازعات پیدا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے ۔ وہاںآئے روز تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت نہ ہوتی تو پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ کیسا ہوتا؟ سوچیں اگر کل پنجاب میں عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تو وفاقی حکومت کیا کرے گی۔ کیا مخالفین کا یہ اندازہ درست نہیں کہ اگر پنجاب میں عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تو وفاقی حکومت خو د بخود حکومت چھوڑ دے گی۔

پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ جس  پارٹی کی مرکز میں حکومت ہو پورے پاکستان پر بھی اسی کی حکومت ہونی چاہیے تھی، یہ خواہش غلط نہیں ہے لیکن اس کے لیے درست راستہ آئین میں ترمیم ہے۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے بغیر پاکستان میں حکومتی نظام تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہیں نہ کہیں پی ٹی آئی کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ فی الحال اسی انداز حکومت چلانی ہوگی۔

ملک کے تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صرف ایک صوبے میں دوسری پارٹی برسراقتدار  ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ حکومت کے ساتھ اچھے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے ایک  شاندار مثال قائم کرنی چاہیے ۔ اسی میں وزیراعظم عمران خان کی کامیابی ہے۔ محاذ آرائی کسی کے لیے بہتر نہیں ہے۔

کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مرکز ی اور صوبائی حکومتیں ملکر کام کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں۔ کراچی کے ساتھ پہلے بھی بہت ظلم ہوا ہے۔ کراچی ایسے مسائل کا شکار ہو گیا ہے کہ اب تو سب کو کراچی پرترس آنے لگا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان کے وسائل کا رخ کراچی کی طرف موڑنا ہوگا اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر کام نہ کریں۔ اگروقت اس بحث میں گزر جائے گا کہ کون کس کے ماتحت ہے تو کام نہیں ہوگا۔ اگر وقت اس بحث میں گزر جائے گا کہ کریڈٹ کس کو کیسے ملے گا تو کام نہیں ہوگا۔ اور اگر وقت اس بحث میں گزر جائے گا کہ کس نے زیادہ اور کس نے کم وسائل دیے ہیں تو بھی کام نہیں ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ آئین کے تحت صوبائی خو د مختاری کے تناظر میں وزیراعلیٰ سندھ کافی حد تک خود مختار ہیں۔ وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن کچھ معاملات میں وفاق اور وزیر اعظم کے ساتھ چلنا بھی ضروری بلکہ آئینی تقاضا ہے۔ مراد علی شاہ صاحب وفاق سے الگ ہو کر نہیں چل سکتے۔ اسی طرح وفاق بھی انھیں ایک حکم کے ذریعے گھر نہیں بھیج سکتا۔ بلاشبہ وفاق کے پاس صوبے میںگورنر راج نافذ کرنے کا آپشن موجود ہے لیکن وہ بھی ایک مشکل راستہ ہے۔ ماضی میں کسی بھی صوبے میں ایسے اقدام کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، اس لیے ملکر چلنے میں ہی حکمت اور ذہانت ہے، یہی جمہوریت کا تقاضا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔