وائٹ ہاؤس کا نیا مکین

ایم جے گوہر  جمعـء 29 جنوری 2021
دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں میں پارلیمانی نظام حکومت ہو یا صدارتی انتخابی عمل کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے

دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں میں پارلیمانی نظام حکومت ہو یا صدارتی انتخابی عمل کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے

دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں میں پارلیمانی نظام حکومت ہو یا صدارتی انتخابی عمل کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے، تمام تر تنازعات، اختلافات اور رکاوٹوں کے باوجود، انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے ہیں اور اقتدار کی منتقلی کا عمل احسن طریقے سے تکمیل کو پہنچتا ہے۔ حلیف وحریف ہر دوفریق انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں بعینہ ہی اپنے ملک کی ترقی کے عمل میں اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں۔

دنیا کی واحد سپر پاور امریکا میں گزشتہ سال کے اواخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی رسوائیوں کی علامت بننے والے غیر مستقل مزاج ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنھیں اگلی مدت کے لیے اپنے صدر بننے کا کامل یقین تھا، کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور ایک معتدل مزاج ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے غیر معمولی کامیابی حاصل کرکے امریکا کے نئے صدر کا حلف اٹھا لیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت اورکسی نئی جنگ کا آغاز نہیں کیا بلکہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لیے طالبان سے کئی مرحلوں پر مشتمل مذاکرات کرکے افغان جنگ کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی، جب کہ ایران کے معاملے پر ٹرمپ نے غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ صدر اوباما کے دور میں ہونے والے امریکا ایران جوہری معاہدہ کو یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا جس کے باعث سعودی اور امریکی قربتوں میں اضافہ ہوا۔

ٹرمپ نے امریکی بغل بچہ اسرائیل کو سابق امریکی صدور کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پلکوں پر بٹھائے رکھا اور اس کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی راہیں ہموار کیں۔

ٹرم نے چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ قربتیں بڑھائیں اور مودی حکومت کے ساتھ تجارتی و دفاعی معاہدے کیے جب کہ پاکستان کو ٹرمپ نے بھارت کے مقابلے میں یکسر نظرانداز کیے رکھا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا تو ٹرمپ نے اس پر پاکستان کے موقف کی حمایت سے چشم پوشی کی۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق بحیثیت مجموعی ڈونلڈ ٹرمپ کا دورصدارت ان کی تجارتی، معاشرتی، معاشی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے متنازعہ سمجھا جاتا ہے جس نے امریکی معیشت، معاشرت، جمہوریت اور نظام کو نقصان پہنچایا۔

نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے حوالے سے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں امید کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بائیڈن ایک طول سیاسی پس منظر اور وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ عالمی حالات پر گہری نظر اور صدارتی مہم کے دوران ان کے مثبت بیانات کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے امریکا کے مقابلے میں بائیڈن کا امریکا خاصا مختلف اور تنازعات سے پاک ہوگا۔نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج شخصیات کی نہیں بلکہ جمہوری عمل کی فتح ہوئی ہے جو بہت قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ نازک بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں آئین، جمہوریت اور امریکا کا دفاع کرونگا۔ انتہا پسندی و سفید فام بالادستی کا خاتمہ کرونگا۔ جوبائیڈن نے عالمی برادری کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم امن، ترقی اور سلامتی کے لیے ایک قابل بھروسہ اتحادی ثابت ہونگے، دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے، ہمیں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے، بہت کچھ بحال کرنا ہے، بہت کچھ تعمیر کرنا ہے اور ہمیں چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ جوبائیڈن انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

دنیا کی واحد سپرپاور کے بااختیار صدر بننے کے بعد ان پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا کے دو بڑے خطے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کریں اور بھارت و اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ زیر قبضہ علاقوں میں انسانی حقوق کا احترام یقینی بنائیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر اور تنازعہ فلسطین کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جوبائیڈن یہ دو بڑے تنازعات حل کروانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن اپنی انفرادی مثبت سوچ کو اپنے ماتحت وزیروں اور امریکا کے مقتدر اداروں پر نافذ کرسکیں گے؟ کیا امریکی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟ جوبائیڈن انتظامیہ میں شامل بھارتی نژاد وزرا، بالخصوص بھارتی پس منظر رکھنے والی نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس کی موجودگی میں تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کیا صورت گری ہوگی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔