آئی ایم ایف کے قرضے اور حکومت کی ذمے داری

ایڈیٹوریل  جمعرات 2 جنوری 2014
موجودہ حکومت بھی ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبائے چلی جا رہی ہے. فوٹو : این این آئی/فائل

موجودہ حکومت بھی ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبائے چلی جا رہی ہے. فوٹو : این این آئی/فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم غلط پالیسیوں کے باعث بار بار آئی ایم ایف کے نرغے میں آ جاتے ہیں‘ بھارت نے آئی ایم ایف سے جان چھڑا لی ہے‘ خدا کرے کہ ہماری بھی جان چھوٹ جائے۔

ہر حکومت اپنے محدود وسائل کے باعث ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرضے لیتی ہے۔ اگر یہ منصوبے دیانتداری اور جانفشانی سے مکمل کیے جائیں تو ان کے بار آور ہونے پر وہ قرضے اتارنا مشکل امر نہیں ہوتا۔اگر قرضوں کا صحیح استعمال نہ کیا جائے، ان کا ایک حصہ کرپشن کی نذر ہو جائے اور منصوبے بھی بروقت پایہ تکمیل تک نہ پہنچیں تو پھر نئے قرضے کی ضرورت پیش آنا لازمی امر ہے۔ اس طرح ملک ایک کے بعد دوسرے پھر تیسرے اور اس طرح لامتناہی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا جس کی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی درست نشاندہی کی ہے کہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور غلط کاموں کے کارفرما ہونے کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت تیسری بار برسراقتدار آئی ہے، ماضی میں جو قرضے لیے گئے اور جو پالیسیاں بنیں ان میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی شریک کار رہی۔ اب اسے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے درست سمت کا تعین کرنا چاہیے۔

عوامی حلقے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا موجودہ حکومت نے کشکول توڑنے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے مگر حالات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں ، موجودہ حکومت بھی ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبائے چلی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کابینہ اجلاس میں خود یہ کہا ہے کہ حکومت ریلوے کی مکمل بحالی کے لیے جاپان سے آسان شرائط پر قرضہ لے رہی ہے۔ اسی اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بھی کہا کہ آیندہ سال جون تک آسان شرائط پر مزید ایک ارب ڈالر قرضہ لیں گے اور اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر کی امدادی رقم بھی ملے گی۔ جب حکومت خود غیر ملکی مالیاتی اداروں کے نرغے میں آ رہی ہے تو قرضوں سے جان کیسے چھوٹے گی۔ قرضوں سے جان اسی وقت چھوٹ سکتی ہے جب حکومت ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبے تشکیل دے۔ جب تک کرپشن اور لوٹ مار کا کلچر موجود رہے گا اور ملکی وسائل بہتر طور پر بروئے کار نہ لائے جائیں گے قرضوں سے نجات ملنا امر محال ہے۔

ایک جانب ٹیکس چوری کا کلچر عام ہے تو دوسری جانب سرکاری وسائل کی تقسیم کار کا عمل بھی درست نہیں۔ سیاسی حلقے یہ الزام دہراتے دکھائی دیتے ہیں کہ قرضوں کا ایک حصہ حکومتی ارکان اور بیورو کریسی کے اللے تللوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور ترقی کے نام پر جو حصہ عوام تک پہنچتا ہے وہ بہت کم رہ جاتا ہے۔ بھارت نے اگر آئی ایم ایف سے جان چھڑائی ہے تو اس میں اس کی بہتر پالیسیوں اور ملکی وسائل کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی کا عمل دخل ہے۔ بھارت میں انفرااسٹرکچر مضبوط ہوا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا ہے مگر ہمارے ہاں انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنانے اور سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی جانب ابھی تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔ وفاقی وزیر خزانہ الزام لگا رہے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے لیکن دوسری جانب وہ مزید قرضہ لینے کی ’’نوید‘‘ بھی سنا رہے ہیں کیا اس طرح ان قرضوں کی ادائیگی پر زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی نہ آئے گی۔ حکومت بروقت بیرونی قرضے ادا کرنے کے دعوے تو کر رہی ہے مگر دوسری جانب اس پر گردشی قرضے ادا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں جس کی اگرچہ وہ تردید کر رہی ہے‘ اصل صورت حال تو حکومتی معاشی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔

اس وقت ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان توانائی کے بحران کے باعث پہنچ رہا ہے۔ اس بحران کے باعث صنعتی‘ تجارتی اور سماجی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے طویل اور مختصر مدتی جامع پالیسی مرتب کی ہے‘ کوئلے‘ ہوا‘ پانی اور سورج سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں‘ حکومت لائن لاسز اور بجلی کے تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے اس امر کا بھی یقین دلایا کہ کراچی میں سرکلر ریلوے بنے گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ آج بجلی بحران کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اب موجودہ حکومت پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اگر وہ توانائی کے بحران پر قابو نہ پاسکی اور اس کی کارکردگی دعوؤں تک ہی محدود رہی تو پھر بجلی بحران کی ذمے داری کا الزام بھی اسی پر دھرا جائے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ الزامات کی سیاست ترک کرکے کارکردگی کو بہتر بنانے پر تمام صلاحیتیں صرف کی جائیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 1999ء میں پاکستان کے ذمے 2 ہزار 946 ارب روپے قرضہ جو 2013 ء میں 15ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

اب موجودہ حکومت ریلوے کی بحالی کے لیے مزید قرضہ لے رہی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ قرضوں کا پہاڑ مزید بلند ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت مزید دباؤ میں آئے گی۔ حکومت غیر ملکی قرضے لے کر ملکی معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے انکم ٹیکس وصولی، بجلی چوری کے انسداد اور اس کے بلوں کی ریکوری کا نظام بہتر بنائے اور سرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کرے تو اسے غیر ملکی قرضے لینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بااثر سیاستدان‘ بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے ٹیکس ادا نہیں کرتے‘ بڑے بڑے سرمایہ دار سرکاری اہلکاروں کی آشیر باد سے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ملک کے متعدد علاقوں میں اسلحے کے زور پر بجلی کے بل ادا نہ کرنے اور اس کی چوری کی روایت بھی بہت پختہ ہے، سرکاری اداروں میں ہر سال کھربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے، ترقیاتی منصوبوں میں گھپلے ہوتے ہیں مگر آج تک کسی بڑے ذمے دارکا احتساب نہیں کیا گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت مزید قرضوں کے بوجھ سے نجات کے لیے ملکی انفرااسٹرکچر بہتر بنائے ورنہ یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔