آوازوں کی اس سوشل میڈیا ایپ سے ٹویٹر فکرمند

ویب ڈیسک  ہفتہ 30 جنوری 2021
کلب ہاؤس فطری انداز میں گفتگو کرنے والی ایک ایپ جو تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ فوٹو: فائل

کلب ہاؤس فطری انداز میں گفتگو کرنے والی ایک ایپ جو تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ فوٹو: فائل

سان فرانسسكو: دنیا بھر میں بلاوے کے ذریعے رسائی حاصل کرنے والی سوشل میڈیا ایپ ’کلب ہاؤس‘ تیزی سے مقبول ہورہی ہے اور اس کی مقبولیت سے خود ٹویٹر بھی فکرمند ہے۔

اس ایپ پر جاکر آپ ان گنت موضوعات پر بنے رومز میں شرکت کرسکتے ہیں۔ آپ یہاں، سائنس، مذہب، فیشن، اسٹارٹ اپ، کورونا وائرس وبا سے لے کر دیگر موضوعات پر بنے چیٹ رومز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اب تک یہ ایپ صرف انوائٹیشن کے ذریعے ہی داخل ہوا جاسکتا ہے۔

لیکن اس پلیٹ فارم میں کوئی ٹیکسٹ، تصاویر یا ویڈیو نہیں ہوتی بلکہ شرکا ایک دوسرے کو وائس نوٹ بھیجتےہیں یا پھر لائیو بات کرتے ہیں۔ یہاں پرہزاروں رومز موجود ہیں جہاں ایک شخص، ماڈریٹر کا کام کرتا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ مجازی طور پر اپنا ہاتھ کھڑا کرکے اجازت لیتےہیں اور یوں ماڈیٹر ان کا مائک کھول دیتا ہے جس کے بعد وہ اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کلب ہاؤس کو اس وقت بڑے کاروباری افراد، مشہور شوبز شخصیات،ٹٰیکنالوجی کے لیڈر اور دیگر ماہرین بھی استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح کلب ہاؤس ایپ کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

روحان سیٹھ اور پال ڈیویسن اس کے بانی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح سماجی رابطہ قدرے فطری اور عام لگتا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ جمع ہوکرآپس میں بات کرسکتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کی گفتگو سنتے ہیں اور اس میں شریک ہوتے ہیں۔

صرف ایک سال کی کم مدت میں ایپ مقبول ہوئی اور اب تک 20 لاکھ افراد یہاں جمع ہوچکےہیں۔ پھر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملنے سے کام تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ایپ کا دائرہ کار وسیع تر ہورہا ہے۔

ٹویٹر کمپنی چونکہ اسپیس کے نام سے آڈیو روم پر کام کررہی ہے اور اسی وجہ سے کلب ہاؤس کی مقبولیت سے ٹویٹر کے اس نئے منصوبے کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ ٹویٹر نے ’اسپیس‘ کے بارے میں کہا تھا کہ اس پر ایک وقت میں کئی لوگ کسی بھی مباحثے میں شریک ہوسکیں گے۔ کلب ہاؤس کا نام لیے بغیر اس کے پراڈکٹ مینیجر کیوون بیکپور نے یہ نہیں کیا کہ چونکہ آڈیو پیغامات والی ایک ایپ مقبول ہورہی ہے اس لیے اس کی نقل کی جانی چاہیے۔

لیکن کلب ہاؤس سے اظہارکی آزادی اور اس پر نفرت انگیز گفتگو پر کئی سوالات بھی اٹھے ہیں۔ کیونکہ اس کے کئی صارفین کلب ہاؤس پر ہراساں کرنے، نفرت پھیلانے، غلط معلومات اور دیگر اختلافی مسائل کی شکایت کرچکے ہیں۔ اس طرح کی گفتگو کو روکنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ ٹیکسٹ کے مقابلے میں آوازوں کو روکنا محال ہوتا ہے اور کب کوئی کیسی بات کہدے اس کی پیشگوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔

تاہم شریک کو خاموش کرانے، چیٹ روم سے باہر نکالنے، اکاؤنٹ ختم کرنے اور اس کی رپورٹنگ کی سہولیات شامل کی گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔