اک وزیر کی عرضی

فاطمہ نقوی  جمعرات 2 جنوری 2014

جناب والا میں ایک وزیر باتدبیر ملک و قوم کا رکھوالا ہوں۔ آپ کے موقر جریدے کے ذریعے کچھ اپنی صفائی میں کہنا چاہتا ہوں۔ ہر روز آپ کے کالمسٹ، رپورٹرز میرے خلاف لکھتے رہے ہیں، کبھی کرپشن کی داستان تو کبھی کوئی اور قصہ۔ میرے تو سنتے سنتے کان پک گئے۔ سنتے سنتے اس لیے کہ مجھے پڑھنا تو آتا نہیں۔ اب آپ سے کیا پردہ۔ یہ ڈگری میں نے بڑی مشکل سے بنوائی ہے، جعلی نہیں بالکل اصلی ہے۔ اس لیے ایک ملازم رکھ لیا ہے جو مجھے روز یہ بے تکی باتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، جس سے میری حالت کبھی کبھی بڑی خراب ہوجاتی ہے مگر جب میں اپنے فائدے کا سوچتا ہوں تو پھر یہ سودا گھاٹے کا نہیں لگتا۔ ویسے آپس کی بات ہے کچھ لوگوں کو میں نے رکھا ہوا ہے جو اکثر میری تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں اور میری شان میں وہ قصیدے پڑھتے ہیں کہ جس سے اکثر میں بھی بے خبر ہوتا ہوں، آخر ان بے چاروں کی روزی روٹی میری تعریفوں کے بل بوتے پر ہی چلتی ہے۔

جناب والا! خود ہی انصاف کریں، الیکشن میں ہمارا کتنا خرچہ ہوتا ہے، ان غریبوں نے کبھی الیکشن لڑا ہو تو پتہ چلے۔ بیکار کی بکواس کرنی آتی ہے۔ مجھ جیسے شریفوں کو بدنام کرنا کام ہے ان کا۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ اربوں روپیہ خرچ کرکے جب ہم جوڑتوڑ کرکے اپنی خاندانی شجاعت، فراست، ذہانت اور اپنے سیاسی ہتھکنڈوں کی وجہ سے اقتدار میں آتے ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس پیسے کو دگنا کریں؟ پھر یہ رونا ڈالتے ہیں کہ یہ ٹھیکے فلاں رشتہ دار کو دیے، یہ محکمہ کسی دوست احباب کو دیا، یہ وزارتیں فلاں رشتہ دار کو دیں۔ اب ہم یہ نہیں کریں گے تو کیا بھوکے ننگے عوام میں سے کسی کو عہدے دے دیں؟ ہم تو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملے طے کرتے ہیں۔

ہاں تو میری دکھ بھری داستان سنتے سنتے اگر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تو پلیز میرے بارے میں آیندہ ہاتھ ہولا رکھیے گا، کیونکہ معاشرے کی مظلوم ہستی یہ عوام نہیں بلکہ ہم ہیں جو اقتدار میں ہیں۔ یہ معاملہ ہی دیکھ لیں قوم کے لیڈر ہم ہیں، ہماری حفاظت قوم کا فرض ہے مگر اس پر بھی ہماری برادری (وزیروں کی برادری) باتیں سنتی ہے، ہم آتے جاتے ہیں تو سڑکیں بند ہوجاتی ہیں، مریضوں کو اسپتال جانے میں تکلیف ہوتی ہے، کچھ تو وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ خود سوچیے! کیا ان مریضوں کو ہم نے مارا ہے؟ یہ تو تقدیر ایسی ہے، ان کا مرنا ایسے ہی لکھا تھا۔ قدرت کے کاموں میں ہمارا کیا دخل؟ جس پر ہم ہی باتیں سنتے ہیں۔ شہر میں کوئی واقعہ ہوجائے، اس کے ذمے دار بھی ہم… لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں تو اپنی مرضی سے۔۔۔۔ ہم کیسے ذمے دار ہوگئے؟ اگر یہ خودکشی کرنے والے ذرا صبر سے کام لیں تو دو چار مہینوں میں فاقوں سے یا خودکش حملوں میں خود ہی عزت کی موت مرجائیں۔ کیونکہ اب ہم نے حالات ایسے پیدا کردیے ہیں کہ لوگ خودکشی سے حرام موت نہیں مریں گے بلکہ بھوک کے ہاتھوں عزت کی موت گھر بیٹھے ملے گی ورنہ خودکشی کے بعد تو جنازہ بھی پڑھنا حرام ہے۔

ہم بھی مسلمان ہیں۔ ہمیں بھی شریعت کی خبر ہے، اسی لیے مل جل کر ہم نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنی جان نہیں لیں گے۔ مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں کو اتنا ٹارچر پہنچادیا ہے کہ اب انھوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ پاکستان میں زیادہ دہشت گردی کریں گے۔ اب عوام مطمئن ہوجائیں کہ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا‘‘ خودکشی کے ہاتھوں حرام موت مرنے کے بجائے شہادت کا رتبہ ملے گا۔ یہ ہمارا کارنامہ کم ہے کیا؟ مگر اس ملک میں تو اچھی سوچ کی قدر ہی نہیں۔ ہر شخص منفی خیالات کا مالک ہے۔ ’’دہشت گردی بند کرو، خودکش حملے بند کرو‘‘ جیسی بے تکی باتیں کرکے لوگوں کا لہو پی لیا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے جو بغیر کوئی جہاد کیے بیٹھے بٹھائے مل رہا ہے۔ انصاف سے اگر آپ کام لیں تو ایسی نیک اور عوام دوست سوچ کسی کی ہوسکتی ہے؟ صلہ رحمی کی پہلے ہم نے شروعات اپنے گھر سے کی۔ میری حکومت نے تمام بڑے بڑے عہدے رشتے داروں (میں بھی جن میں سے ایک ہوں) قرابت داروں میں تقسیم کردیے تاکہ مساوات قائم رہے، کہیں کوئی عہدہ، وزارت یا سفارت بچ گئی تو اس کو بھی چھان پھٹک کر ایسے لوگوں کو دی گئی جو کہ ہمارے عزیزوں کے عزیز تھے۔ مگر وائے افسوس! ہمارے اس اقدام کو بھی کینہ پرور نظروں سے دیکھا گیا۔ صفحے کے صفحے کالے کیے گئے اور سچی بات ہے کہ بیکار ہی کیے۔ مجھ پر کون سا اثر ہونا تھا۔

ہم اقتدار میں اس لیے تھوڑی آئے ہیں کہ ان لکھاریوں کی باتوں پر دھیان دے کر اپنی دنیا خراب کرلیں۔ اب نوجوانوں کی قرضہ اسکیم کو ہی لے لیں۔ انصاف سے کام لے کر بتانا کیا 100 ارب روپے کسی ایرے غیر نتھو خیرے کے حوالے کردیے جاتے؟ اس سے زیادہ کیا شفافیت ہوگی کہ یہ روپیہ اپنے ہی ہاتھوں میں رہے اور اﷲ کے فضل سے دینے کا عمل بھی ایسا ٹیکنیکل کردیا ہے کہ کسی غریب فقیر کو تو ملنے سے رہا ’’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ اسی لیے آپ سے کیا پردہ۔۔۔۔ قرضہ صرف ان لوگوں کو ملے گا جو ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ اس لیے شرائط ہی ایسی رکھی گئی ہیں تاکہ رشتے داروں، قرابت داروں کا بھلا ہو اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وزیر بن کر رشتے داروں سے آنکھیں پھیر لیں۔ عوام کو بے وقوف بنانا آسان ہے بہ نسبت گھر والوں اور شریکوں کے۔ بھلا ہو اس جمہوریت کا۔۔۔۔ اس کی وجہ سے تو ہم اس قابل ہوئے ہیں۔ اب ایک رولا اور دیکھیں جو میرے مخالفین میرے خلاف ڈال رہے ہیں کہ حکومت بھارت سے دوستی یاری کر رہی ہے۔ بے وقوف یہ نہیں جانتے کہ ہمسایہ ماں جایہ ہوتا ہے۔ بڑے حقوق ہیں ہمسائے کے۔ کیا ہوا وہ تھوڑی بہت فائرنگ سرحدوں پر کرتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ ہم دل والے لوگ ہیں۔

ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اسی لیے ہماری سوچ تو یہ ہے کہ سرحدوں کا چکر ہی ختم کردیا جائے۔ نہ سرحدیں ہوں گی نہ بلااشتعال فائرنگ ہوگی ’’نہ رہے گا بانس‘نہ بجے گی بانسری‘‘۔ مگر برا ہو لوگوں کا کہ ہر اچھی بات میں الفاظ کے تیر چلاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو بھارت کا اور ہمارا کلچر ایک، زبان ایک ۔ میری اس سوچ پر پورے بھارت میں میری جے جے کار مچی ہوئی ہے مگر کچھ لوگ ہیں یہاں پاکستان میں ہیں جو میرے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ان کا منہ بھی بند کرنا پڑے گا۔ تو جناب والا! آپ کو اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ میرے خلاف جتنی باتیں ہیں وہ سب بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہیں۔ اکثر لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے چیختے رہتے ہیں تعلیم عام کرو، بجٹ میں تعلیم کو زیادہ حصہ دو۔ بے وقوف یہ نہیں سمجھتے کہ سب لوگ پڑھ جائیں گے تو پھر نچلے درجے کے کام کون کرے گا؟ یہ کام کرنے میں ان کی شان گھٹے گی۔ بے کار کے کاغذ کے ٹکڑے سیاہ کرتے رہتے ہیں، وقت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں۔

تعلیم ڈگری سے نہیں علم سے بڑھتی ہے، ہم نے کون سی تعلیم حاصل کی ہے۔ مگر آج ان ڈگری والوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ سیاپے ہمارے اوپر ڈالتے رہیں گے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کے سامنے اصل صورت حال لاؤں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ مجھے پوری امید ہے کہ میرے عظیم خیالات کو آپ کے اخبار میں ضرور جگہ ملے گی۔ اس کے علاوہ ہر ایرا غیرا کچھ نہ کچھ لکھ رہا ہے۔ اسی لیے میں نے بھی سوچا کہ میں بھی کچھ لکھ لکھا کر لکھاریوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لوں۔ نام میرا کافی ہے، دستخط میں بقلم خود کروں گا۔ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے۔ آیندہ بھی گاہے بہ گاہے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اصل حقائق سامنے لاکر تنقید کرنے والوں کا منہ کالا کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔