وی گن افراد

شیخ جابر  جمعرات 2 جنوری 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

اس گورے نے مجھے حیران کر دیا تھا (اور کسی درجے پریشان بھی)۔ وہ مہمان تھا اور مہمان کی مدارات ہماری روایات کا حصہ ہے، لیکن میں کیا کرتا کہ اس کی مدارات میرے لیے ایک مشکل بنی ہوئی تھی۔ وہ پہلے تو ایسا نہ تھا۔ اب سے بارہ پندرہ برس قبل میری اس سے شمال کے ایک سفر کے دوران صاحب سلامت ہوئی تھی۔ ایک خوب رو دوشیزہ اس کے ساتھ تھی جو قطعی طور پر اس کی نصف بہتر نہ تھی۔ دونوں سوئیڈن سے آئے تھے۔ موصوف کا نام اوسکر تھا اور دوشیزہ کیرولین تھی۔ ان دنوں اوسکر اتنا مشکل نہ تھا۔ وہ ہمارے لیے ایک عام سا گورا تھا، جو سوئیڈن کے کسی قصبے کا رہائشی تھا۔ گویا وہ بھی ہماری ہی طرح کا پینڈو تھا۔ وہ نقشہ نویس تھا اور دنیا بھر کے سیر سپاٹے گویا اس کی ہابی تھے۔ ہماری طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اسے بھی بے حد کشش محسوس ہوتی تھی۔ راولپنڈی سے چلاس اور پھر علی آباد تک ہم ساتھ تھے۔ پھر راستے الگ ہوئے، ہم سستانے کے لیے دوئیکر چلے گئے، وہ کسی اور سمت۔ کئی دن بعد جب ہم علی آباد لوٹے تو وہ بھی وہیں تھے۔

یہ دوبارہ ملاقات اچھی بھلی دوستی میں بدل گئی۔ ہم ساتھ کھانا کھاتے، ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرتے اور سیر پر بھی ساتھ ہی نکلتے۔ اس کے ساتھ کیرولین تھی اور میرے ساتھ حافظ سید مسرور، وہ ہمیں نمازیں پڑھتے دیکھ کر حیران ہوتے اور ہم ورطہ حیرت میں پڑے رہتے کہ وہ لامذہب ہیں۔ انھوں نے ابھی تک یہ سوچنے کا تکلف بھی نہیں کیا تھا کہ خدا ہے بھی یا نہیں۔ واپسی کے سفر میں کیرولین نے ہماری خواتین سے ملنے اور ان کے ساتھ چند دن گزارنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اسے بہت حیرت تھی کہ ایک ہی چھت کے نیچے اتنے بہت سے خاندان ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہم نے اگر چہ فوراً حامی تو بھر لی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں سر پر اماں کی جوتیاں بھی سایہ فگن نظر آتی تھیں۔ وہ تو خدا کا صد شکر ہوا جو اسلام آباد پہنچ کر انھوں نے کہیں اور کا رخ کیا اور ہم سکون کا سانس لیتے گھر واپس لوٹے۔

ایک عرصے بعد اوسکر پاکستان آیا تھا اور اب ہمارے گھر پر تھا۔ خیر ہوئی جو اس مرتبہ اکیلا ہی تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شمال کے سفر میں ہم اس کا ساتھ دیں۔ لیکن بوجوہ ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ ہماری بیگم باوجود پردہ دار نہ ہونے کے اس کے سامنے نہ آئیں لیکن ہمارے بچے اور اماں جان اس سے خوب گپ شپ کرتے۔ یہ اردو میں اپنی باتیں کہتے اور وہ اپنی کچی پکی انگریزی اور سوئیڈش بولتا۔ ہمیں تو خود انگریزی نہیں آتی بس کسی نہ کسی طرح کام چلا لیتے ہیں۔ لیکن اوسکر کی انگریزی تو ہم سے بھی گئی گزری تھی۔ اس کی آمد سے ہم سب ہی خوش تھے۔ لیکن اس کی خوراک ہمیں عجیب لگتی تھی۔ وہ بوتل کے پانی کے بجائے سادہ پانی پیتا تھا۔ گرمیوں میں بھی ٹھنڈا پانی نہ پیتا۔ کوئی سوفٹ ڈرنک نہیں پیتا تھا، بیکری کی چیزیں نہیں کھاتا تھا۔ چائے پیش کی گئی تو اس نے کہا، میں کاوا (بغیر دودھ کی چائے) پیوں گا۔ انڈا، گوشت، دودھ اور دودھ سے تیار اشیاء اس کے لیے بہ منزلہ حرام کے تھیں۔ ہم نے پوچھا بھائی کیا تم اہمسا کے پرچارک ہوگئے ہو؟ کہنے لگا اہمسا کیا ہوتا ہے؟ ہم نے کہا بہت گریٹ ہوتا ہے، ہماری طرف کی چیز ہے تم گورے نہیں سمجھو گے۔ کہنے لگا ہوسکتا ہے لیکن میں ’’وِی گَن‘‘ ہوں۔ اب نہ سمجھنے کی میری باری تھی۔ میں بولا محترم ویگنیں تو ہماری جانب بہت چلتی ہیں، لیکن یہ ’’وِی گَن‘‘ کیا ہوتا ہے؟ وہ بتانے لگا کہ یہ وہ افراد ہیں جو حیوانوں پر بھی ظلم کے خلاف ہیں۔ ہم نے بھی بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم بھی حیوان تو حیوان کسی بھی جان دار یہاں تک کہ بے جان پر بھی ظلم کے خلاف ہیں، ہم نے جو جو کہا وہ پھر کبھی سہی۔ گورا صاحب نے جو فرمایا ہمارے خیال میںوہ کچھ یہ تھا۔

موجودہ دور کے انسانوں نے اپنی روزانہ کی غذا میں دودھ اور گوشت کو لازم سمجھ لیا ہے۔ اس مصنوعی کھپت کی بنا پر دودھ اور گوشت کا فطری ذرایع سے حصول ممکن العمل ہی نہیں۔ لہٰذا حیوانی گوشت اور دودھ کے حصول کے لیے انسانوں نے ظالمانہ اور حیوانی طریقے اختیار کرلیے ہیں۔ بھینس کا دودھ بھینس کے بچے کے لیے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بھینس انسانوں یا انسانوں کے بچوں کے لیے دودھ نہیں دیتی۔ معلوم انواع میں صرف انسان ایک ایسی نوع ہے جو کسی دوسرے جان دار، ممالیہ یا کسی اور نوع کا دودھ پیتا ہے۔ مختلف انواع میں سے صرف ممالیہ دودھ دیتے ہیں۔ ہر ممالیہ کا دودھ صرف اس کے اپنے بچے کی غذائی ضروریات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ محض اتنے عرصے کے لیے کہ وہ ثقیل غذا کھانے اور ہضم کرنے کے قابل ہوسکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گزشتہ چند سو برسوں کے علاوہ دودھ اور گوشت کبھی کسی تہذیب کے انسانوں کی غذا کا حصہ اس طرح نہیں رہا جس طرح کہ آج ہے۔ ابتدا میں انسانوں نے یہ کیا تھا کہ بھینس یا گائے کو بچھڑا دکھا کر دودھ دینے پر مجبور کرتے، جب بھینس کے تھنوں میں دودھ اترتا تو کمال چالاکی، چابک دستی اور بے رحمی سے بچھڑے کو ہٹا لیا جاتا اور بھینس کے اور اس کے بچھڑے کے دودھ پر اور حق پر ڈاکا ڈال کر تمام دودھ فروخت کردیا جاتا۔

جوں جوں سائنس اور مغرب نے ترقی کی انسان کے حرص و ہوس میں اضافہ ہوتا گیا۔ دودھ کی فروخت جو کسی زمانے میں معیوب سمجھی جاتی تھی۔ ابتداً گوالوں کے ہاتھ آئی اور پھر ایک صنعت کی صورت اختیار کرگئی۔ لوگوں کو نئی نئی ایسی غذاؤں کا چسکا ڈالا گیا جو دودھ یا اس کے اجزا پر مشتمل ہوں۔ مثلاً آئس کریم، کریم کیک، کیسین، ویھ پروٹین، لیکٹوز، کنڈینسڈ ملک، خشک دودھ وغیرہ۔ دوسری جانب طبی ماہرین اور حکومتوں سے ایسے فتوے جاری کروائے گئے جس کے مطابق ہر انسان خصوصاً خواتین کو دن میں ایک یا کئی گلاس دودھ پینا لازم قرار پاتا ہے۔ امریکی حکومت دودھ کی صنعت کے فروغ کے لیے سالانہ قریباً 180 ملین ڈالر کے اشتہارات جاری کرتی ہے۔ امریکی حکومت نے 2010 میں ایک دستاویز ’امریکیوں کے لیے غذائی ہدایات‘ کے نام سے جاری کی۔ اس کے مطابق بالغوں کو بغیر چکنائی یا کم چکنائی والے دودھ کے 3 گلاس روزانہ پینے چاہیے۔ ایسی چیزیں گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی ہی سے دیکھنے میں آئی ہیں۔

اس سے قبل کبھی ایسا نہ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھینس یا گائے کو ایک دودھ دینے والے عفریت میں تبدیل کردیا گیا۔ انھیں ایسے ایسے انجکشن لگائے جاتے ہیں کہ وہ دودھ دیتے رہنے پر مجبور رہیں۔ ان ظالمانہ حربوں کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ امریکا کی گائیں 87,446,130 ٹن سالانہ دودھ دے سکیں (2010)۔ فطری طریقوں سے رکھی گئی گائے کبھی بھی 25 سے 30 کلو روزانہ دودھ نہیں دے گی۔ انھیں ایسے ہارمون صبح شام لگائے اور پلائے جاتے ہیں جو خود ان کے لیے اور انسانوں کے لیے سم قاتل ہیں۔ دودھ دینے والے حیوانوں کے نوزائیدہ بچھڑوں کو بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ مرغیوں کی ہیچریز میں ناپسندیدہ چوزوں کو کھولتے پانی میں ڈال کر ہلاک کیا جاتا ہے۔

مغربی طرز پر انڈے، دودھ اور گوشت کی صنعت کس طرح چلتی ہے، ہم دانتوں میں انگلی دبائے سنا کیے۔ اوسکر بولا ’وِی گُن‘ وہ افراد ہیں جو اس وحشیانہ ظلم کے خلاف ہیں، لہٰذا وہ یہ چیزیں استعمال نہیں کرتے۔ ہم جو خود کو بہت رحم دل اور نرم دل گردانتے تھے، اوسکر اس کے ضمیر پر ایک بوجھ ڈال گیا۔ ہم اب بھی کبھی کبھی طویل وقفوں کے لیے ’’وِی گَن ‘‘ بن جاتے ہیں، لیکن… آپ تو ہمیں جانتے ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔