بیروزگاری کا ناسور

عابد محمود عزام  جمعرات 2 جنوری 2014

28 لاکھ افراد کچھ کم نہیں ہوتے، وہ بھی صرف پانچ سال میں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ صرف پانچ سال کے دوران پاکستان سے اٹھائیس لاکھ افراد روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک جاچکے ہیں اور 2008 سے 2013 کے درمیان غیر ملکی آجروں کی جانب سے منتخب ہو کر بیرون ملک جانے والے ان اٹھائیس لاکھ افراد میں زیادہ تر فنی مہارت رکھنے والے نوجوان تھے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان سے بھی 32 ہزار افراد روزگار کے لیے بیر ون ملک جانے والوں میں شامل ہیں اور صرف گزشتہ بر س 41,500 پروفیشنل اور ٹیکنیکل افراد بیرون ملک گئے ہیں۔ صرف پانچ سال میں فنی مہارت رکھنے والے اٹھائیس لاکھ پاکستانیوں کا دوسرے ممالک سدھار جانا غیرمعمولی اور قابل غور بات ہے اور پاکستان کے لیے سود مند بھی نہیں ہے۔

کوئی لاکھ دلائل دے کہ پاکستانیوں کا بیرون ملک جانا ملک کے مفاد میں ہے اور بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقم سے ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے، لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ملک کی باصلاحیت افرادی قوت اگر اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک کی ترقی کے لیے وقف ہوجائے تو اس سے کسی حد تک معاشی فائدہ تو ہوسکتا ہے، مگر مجموعی طور پر ملک کے نقصان میں ہے۔ یہ اٹھائیس لاکھ تو وہ ہوئے جو صرف آخری پانچ سال میں ملک سے گئے، ورنہ اب تک نجانے ملک کے کتنے ہی ہیرے ہوں گے جو ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، لیکن اپنی صلاحیتوں اور محنت کو دوسرے ممالک کی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لارہے ہیں۔ ملک میں باصلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں ہے، اس کے باوجود ملک سے اتنی بڑی باصلاحیت افرادی قوت کا دوسرے ممالک جانے سے ملک کے تمام اداروں میں باصلاحیت افراد کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

بیرون ملک جانے والے لاکھوں باصلاحیت افراد کو اگر ملک کے اندر روزگار فراہم کیا جائے اور وہ اپنی خدمات و صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے وقف کریں تو یقیناً یہ ملکی معیشت و ترقی کو چار چاند لگاسکتے ہیں۔ اگر اپنے ملک کے اندر ہی لوگوں کو روزگار ملے تو کس کا دل چاہتا ہے کہ اپنا ملک، خاندان اور اپنے علاقے کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور چلا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماہرین فن و ہنر اور باصلاحیت افراد کے لیے ملک میں ہی ایسے مواقع پیدا کیے جائیں جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہو، ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ جتنا پیسا یہ لوگ دوسرے ممالک سے ملک میں بھیجتے ہیں، اس سے بھی زیادہ ملک کے اندر رہ کر کمائیں، قومیں دوسروں کی دولت سے ترقی نہیں کیا کرتیں، ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کی صلاحیت و محنت سے ترقی ہوتی ہے۔ جب کسی قوم و ملک سے اس کے باصلاحیت و اہل فن حضرات ہی سدھار جائیں تو وہ ملک ترقی کی منازل کیونکر طے کرے گا؟ قابل حیرت بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنا بچپن پاکستان میں گزاریں، تعلیم یہاں حاصل کریں، مختلف فنون میں مہارت یہاں حاصل کریں اور جب جوان ہوکر ملک کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہوں تو ان کے لیے روزگار میسر نہیں اور روزگار کے لیے انھیں دوسرے ملک جانا پڑے۔

سرکاری نوکریاں تو اب خواب و خیال کی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں۔ کسی سرکاری محکمے میں نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کو زندگی کے اٹھارہ اٹھارہ سال تعلیم کے حصول میں صرف کرنے کے باوجود نوکری نہیں ملتی ۔ سرکاری محکموں کی حالتِ زار تو یہ ہے کہ بہت سے ادارے شدید مالی بحران سے دوچار ہیں اور مسلسل خسارے نے انھیں سفید ہاتھی بنادیا ہے۔ایسے تمام اداروں کی حیثیت ملکی خزانے پر بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں رہی۔ اپنی زبوں حالی کے باعث یہ ادارے مزید افراد کو نوکریاں دینے کے قابل نہیں رہے۔ رہی سہی کسر سفارش و رشوت نے نکال دی ہے، جس کے باعث اکثر جگہوں پر نااہل لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔

یہ مانا کہ ہر فرد کو ملازمت دینا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن وہ ایسے حالات تو پیدا کر سکتی ہے جس سے عوام کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ مختلف غیرسرکاری انڈسٹریز کو سہولیات مہیا کر کے بہت ساری نوکریاں دی جاسکتی ہیں۔ وہ ممالک جہاں شرح خواندگی کم اور آبادی زیادہ ہو، وہاں غیرسرکاری انڈسٹریز لوگوں کو نوکریاں دینے اور معیشت کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے صاحب اقتدار حضرات توانائی بحران، دہشت گردی، کرپشن، نااہل انتظامی ڈھانچے اور اقتصادی منصوبہ بندی کی زبوں حالی جیسے مسائل پر قابو نہیں پاسکے، جس کے باعث غیر سرکاری انڈسٹریز بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، پاکستان کی معیشت سست روی کی جانب گامزن ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت خود تو سرکاری نوکریاں دینے سے قاصر ہے، جب کہ غیر سرکاری اداروں کے مسائل بھی حل نہیں کیے کہ یہی نجی ادارے کافی حد تک بیروزگاری کو کم کردیتے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی ملک کے نوجوان اس کی افرادی قوت ہوتے ہیں، یہی افرادی قوت قوم کا اصل قیمتی سرمایہ ہے اور اگر بہتر تعلیم کے بعد اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کردیے جائیں تو یہ لوگ ملک کے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت دے سکتے ہیں، لیکن یہ باصلاحیت اور قابل افراد روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اقتصادی، معاشرتی، معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، جس سے سماج میں افراتفری کا عالم پیدا ہوجاتا ہے۔ جب ایک طویل عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی تو ملک میں بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد میں سے اکثر حالات کی سختیوں اور مشکلات سے گھبراکر مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں، پھر یہ اندھیرے انھیں جرائم کی دنیا کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور خودکشی، دہشتگردی، چوری، لوٹ مار جیسے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔

روزگار فراہم کرنا کسی بھی ملک کی حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر روزگار کے مواقع نہیں ہیں تو ملک و قوم کے مفاد میں طویل المیعاد پالیسیاں بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی حکومت کا فرض ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومتیں اپنی تمام ذمے داریوں کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی سیاسی مفاد کی خاطر بے روزگار نوجوانوں کونوکریاں دینے کے بجائے سودی قرضے دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے، جس سے بے روزگاری کا خاتمہ تو کیا ہوگا، حکومت اور ان بے روزگاروں کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ ہزار بکھیڑوں کے بعد اگر کسی کو قرض مل بھی جاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جہاں بے شمار مسائل کے باعث بڑے بڑے اور پرانے کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں، وہاں یہ نووارد نوجوان کاروبار میں کامیاب ہوپائیں گے اور اگرکاروبار میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اپنی بقیہ زندگی قرض اتارنے میں صرف کریں گے یا پھر اپنے لیے محنت مزدوری کرنے میں؟ حکومت کو چاہیے روزگار کی فراہمی کے لیے ہر ممکن سنجیدہ کوشش کرے اور روزگار کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مسائل توانائی بحران، دہشت گردی، کرپشن، نااہل انتظامی ڈھانچے اور اقتصادی منصوبہ بندی کی زبوں حالی کا خاتمہ کرے۔ جب تک حکومت مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرکے مسائل کا مستقل حل تلاش نہیں کرتی، اس وقت تک مسائل کا حل ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔