کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 31 جنوری 2021
بس یہی سوچ کے خوش باش رہا جانے لگا
تجھ کو افسوس تو ہو،ہاتھ سے کیا جانے لگا
 فوٹو : فائل

بس یہی سوچ کے خوش باش رہا جانے لگا تجھ کو افسوس تو ہو،ہاتھ سے کیا جانے لگا فوٹو : فائل

غزل


بس یہی سوچ کے خوش باش رہا جانے لگا
تجھ کو افسوس تو ہو،ہاتھ سے کیا جانے لگا
میں نے اک شعر ترے نام کیا ہے جب سے
میرا ہر شعر توجہ سے سنا جانے لگا
لوگ اک دور میں دیواریں چنا کرتے تھے
پھر تو دیوار میں لوگوں کو چنا جانے لگا
تجھ کو اک بار مرے دکھ پہ ہنسی آئی تھی
پھر ہر افتاد پہ دنیا میں ہنسا جانے لگا
میں نے اس شخص کو جانے کی اجازت کیا دی
میں اسے بھیجنے والوں میں گنا جانے لگا
میں نے دھو ڈالے نشانات لہو سے اپنے
جب یہ دیکھا کہ تری سمت کھرا جانے لگا
مجھ کو اک شخص سے ملنے کی بہت جلدی تھی
اتنی جلدی تھی کہ نیندوں میں چلا جانے لگا
مجھ کو بھگوان کا اوتار سمجھ بیٹھا تھا
آنکھ جھپکی تو پرستار اٹھا،جانے لگا
جیسے شہروں کے کبھی نام پڑا کرتے تھے
ایسے اک دن سے مجھے تیرا کہا جانے لگا
(ساجد رحیم ۔راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


دِیے کی آخری خواہش کا احترام کرو
تمام شہر جلانے کا اہتمام کرو
وجود چُپ کی طرف گامزن ہے اور مجھے
یہ لوگ بول رہے ہیں کوئی کلام کرو
کوئی تو لفظ تراشو ہماری حرمت پر
کوئی تو سنگ ہمارے سروں کے نام کرو
میں تھک چکا ہوں قدم سے قدم ملاتے ہوئے
رکو بھی قافلے والو کہیں قیام کرو
یہ خواب، ہجر، یہ وحشت، یہ دکھ یہ اشکِ رواں
قبول کر لو انہیں یا پھر انتظام کرو
(دانش حیات۔ کراچی)

۔۔۔۔
غزل


تیری خوشبو سے مہک جاتی ہیں سوچیں اُس کی
جو تری موج میں آ جائے ہے، موجیں اس کی
اُس کی آنکھوں میں چمکتا ہُوا دیکھو مِرا دل
میرے سینے میں دھڑکتی ہوئی آنکھیں اُس کی
کڑو ے لمحوں کا اثر دل سے مٹادیتی ہیں
یہ فضاؤں میں شہد گھولتی باتیں اُس کی
جس کا کچھ بھی نہ رہے یعنی کوئی بھی نہ رہے
لوگ دیتے ہیں محبت میں مثالیں اُس کی
جو کوئی آلِ محمد پہ فدا ہو شہبازؔ
سجدے اُس کے ہیں،دعا اُس کی، نمازیں اُس کی
(شہباز نیّر۔ رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل


درونِ خواب عجب خواب کوئی آتا ہے
کہ آفتابِ جہاں تاب کوئی آتا ہے
کسی کی قہر نگہ کا اثر ہے آنکھوں پر
کہ جب بھی روتے ہیں تیزاب کوئی آتا ہے
وہ سرخ ہونٹوں سے بوسہ اچھالتی ہے اِدھر
تو اُڑ کے گالوں پہ سرخاب کوئی آتا ہے
عجیب منتشری ہے چہار سو اپنے
کسی کو سوچتے ہیں خواب کوئی آتا ہے
چلو کہ دل وہیں دریا دلوں کے ملتے ہیں
زمیں پہ خطۂ پنجاب کوئی آتا ہے
(انعام کبیر۔کامونکی، گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


تمہارا ہجر اسے آبشار کرتا تھا
ہماری آنکھ پہ تھل انحصار کرتا تھا
وہ پھول دیکھنے آتا تھا باغ میں ہر روز
میں خوشبوؤں کو وسیلہ شمار کرتا تھا
حضور آپ تو دل دے کے چیخنے لگے ہیں
میں ایک شخص پہ جاں تک نثار کرتا تھا
میں چاہتا تھا کہ وہ بولتا رہے، میں سنوں
مگر وہ کم گو بڑا اختصار کرتا تھا
خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیوں کہ
خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا
کسی کی شکل اترتی تھی شعر بن کے حسیبؔ
کوئی خیال مجھے سوگوار کرتا تھا
(حسیب الحسن ۔خوشاب)

۔۔۔
غزل


دیکھتے ہیں مشاہدے کے لیے
چھونا ہے اس کو تجربے کے لیے
وہ جو اب پاس ہے تو مجھ پہ کھلا
کتنی دنیا ہے گھو منے کے لیے
مجھے کیا علم تھا تماشا ہو
میں تو آیا تھا دیکھنے کے لیے
ان لبوں پر نہیں ہیں داد کے نوٹ
ایک گالی ہے مسخرے کے لیے
روز کرتا ہے اپنی من مانی
روز آتا ہے مشورے کے لیے
کتنی آنکھوں کو چھوڑ آیا ہوں
تیری آنکھوں کو دیکھنے کے لیے
وہی آواز روکتی رستہ
وہی زنجیر مشورے کے لیے
(محمد عامر۔خوشاب)

۔۔۔
غزل


اس لیے بھی کچھ انتظار نہیں
میں گرفتارِ حسنِ یار نہیں
پتھروں کی تلاش کیوں کیجے
جب درختوں پہ برگ و بار نہیں
شاملِ راز کوئی اور نہ ہو
یہ مرا خط ہے اشتہار نہیں
اپنے کردار میں خرابی ہے
ورنہ آئینے پر غبار نہیں
ان گنت شعر گو ہوئے جازم ؔ
لیکن ان میں ترا شمار نہیں
(جازم فراز۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


مجھ کو ترے جہان میں سمجھا نہیں گیا
پر تیری ذات سے تو بھروسہ نہیں گیا
شکوہ کناں ہیں سب میرا سایہ گھنا نہیں
مجھ کو زمین کھود کے بویا نہیں گیا
عریاں بدن کے ساتھ گزاری ہے زندگی
لیکن لبادہ جھوٹ کا اوڑھا نہیں گیا
میں کس طرح سے کیک بھلا کاٹتا اے دوست
مجھ سے تمہارا ہجر تو کاٹا نہیں گیا
میں ہوں اکیلے پن کی اذیت سے آشنا
مجھ سے ادھورا چاند بھی دیکھا نہیں گیا
ماضی کے دھندلکوں میں ہوں اتنا ہوا مگن
مجھ سے شب ِبرات میں رویا نہیں گیا
مر کر بھی ہم زمانے کے کاندھوں پہ بوجھ ہیں
ملبا ہماری لاش کا ڈھویا نہیں گیا
کم حوصلہ ہوں میری بصارت پہ حیف ہے
تھا جس کو سوچنا اسے دیکھا نہیں گیا
باندھا ہے اپنی زلف سے تونے مجھے عدمؔ
مجھ سے ترا خیال بھی باندھا نہیں گیا
(ظفر اقبال عدم۔ کڑور لعل عیسن)

۔۔۔
غزل


آہوں سے اٹھ رہا ہے دھواں آج شام سے
بچھڑا ہے کوئی مجھ سے بڑے احترام سے
کر لے مرے وجود کا انکار ہر جگہ
جانیں گے لوگ پھر بھی تجھے میرے نام
اس واسطے یہ پیڑ اداسی میں غرق ہیں
پنچھی گئے ہوئے ہیں سبھی ایک کام سے
پھربھی یہ برتری ترے حصے میں آئے گی
گر ہو موازنہ ترا ماہِ تمام سے
مدفن ضرور ہوگا علی کے غلام کا
خوشبو نکل رہی ہے اگر اُس مقام سے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


نہ معرفت میں ہے باقی نہ استعارے میں
جو بات ہے نا تری آنکھ کے اشارے میں
میں اس کو روتے ہوئے چومتا رہا کچھ دیر
بچھڑ گیا تھا وہ کل مجھ سے استخارے میں
تمہارے حسن کی تعریف کرنے والوں کو
پتا ہے سورۂ یوسف ہے کس سپارے میں
وفائیںمنہگی سے منہگی ترین ہونی ہیں
خرید لینا اگر مل رہی ہوں وارے میں
یہ بچے جان سے پیارے ہیں اس لیے بھی مجھے
میں ان سے پوچھتا رہتا ہوں تیرے بارے میں
سوال، کیسے گزاری ہمارے بعد حیات
جواب، جو بھی گزاری فقط خسارے میں
(مصطفی کمال۔ لیہ)

۔۔۔
غزل


گنگ ہوتی ہوئی صدا سُن لے
ہے مری آخری دعا، سن لے
ابھی ملنے کی بات مت کرنا
کہیں ایسا نہ ہو ، وبا سُن لے
زندگی سوز کی ہے پروَردہ
زندگی ساز ہے، بجا سُن لے
تیرگی کی ہَوا چلے اور پھر
اُس کو خیمے کا اِک دِیا سُن لے
(سفیر نوتکی ۔ بھکر)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔