میڈیا اور چیلنجز (آخری حصہ)

محمد سمیع گوہر  جمعرات 2 جنوری 2014

کوئٹہ پولیس کی جانب سے چار مقامی اخبارات پرکالعدم تنظیموں کے بیانات شایع کرنے پر مقدمات درج کیے گئے جوصحافیوں کے شدید احتجاج پر واپس لیے گئے ۔اس طرح زیارت میں قائداعظم کی ریزیڈینسی کو ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے تباہ کرنے کی فلم دکھانے پر ایک نیوز چینل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جو بعد ازاں صحافیوں کے شدید احتجاج پرواپس لیا گیا۔ ایک انگریزی اخبار کے ٹھٹھ کے نامہ نگار عباس جلبانی کے بیٹے کو ذاتی دشمنی کی بنا پرگولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے روزنامہ ایکسپریس کراچی کے دفتر پر ایک سال کے دوران دو بار حملے کیے گئے جن میں چار افراد زخمی ہوئے اور قیمتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔بلوچستان کے صحافی عبدالرزاق سربازی جن کو کراچی کے علاقے لیاری سے اغواء کیا گیا تھا 44روز بعد کراچی ہی میں ان کی تشدد زدہ لاش پھینک دی گئی۔سکھر شہر میں کمشنر کے نامناسب رویے کے خلاف احتجاج کرنے پر دس صحافیوں کو لاٹھی چارج کرکے زخمی کردیا گیا۔

لیاری کراچی میں جاری گینگ وار کی لڑائی کی کوریج کے لیے جانے والی ایکسپریس نیوز کی ٹیم پر گینگ وار کے کارندوں نے حملہ کردیا رپورٹر اور کیمرہ مین نے بمشکل جان بچائی اور اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر مولوی فضل اللہ کی جانب سے صحافیوں اور میڈیا کے اداروں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ان حالات کے پیش نظر کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا کہ صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک علیحدہ فورس قائم کی جائے۔پاکستانی میڈیا جہاں دہشتگردوں، کرپٹ مافیا ،لینڈ مافیا،منشیات فروشوں ،بدعنوان اور قانون شکن عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے اس سال اسے اپنی ہی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی ڈٹ جانا پڑا۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاقی حکومت کے مختلف محکموں کے خفیہ فنڈز کے استعمال کے بارے میں ایک زیر سماعت مقدمے کی بنا پر یہ خبر بھی سامنے آئی کہ وفاقی وزارت اطلاعات کی جانب سے اپنے خفیہ فنڈز سے 282صحافیوں کو تقریباً 18 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ہیں تو عدالت عظمیٰ کو یہ احکامات جاری کرنے پڑے کہ جن صحافیوں میں یہ رقم تقسیم کی گئی ہے ان کے نام سرکاری ویب سائٹ پر ڈالے جائیں۔

اس انکشاف کی بنا پر ملک کے دوسینئر صحافیوں کی جانب سے صحافیوں کی کرپشن بے نقاب کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس پر جسٹس جواد اے خواجہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک دو رکنی بینچ نے ریٹائر جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جاوید جبار پر مشتمل میڈیا احتساب کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے سیکریٹ فنڈز کیس میں وزارت خزانہ سے صحافیوں پر خرچ کی جانے والی رقوم کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔سرکاری اداروں سے مالی مراعات حاصل کرنے والے صحافیوں کی فہرست میں اپنا نام آنے پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر پرویز شوکت نے غلط اطلاعات فراہم کرنے پر سیکریٹری اطلاعات پر ایک ارب روپے مالیت کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔ وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی فہرست میں ایک سینئر صحافی کو 30 لاکھ روپے ادا کرنے کے ذکر پر سپریم کورٹ کی جانب سے ان کو وضاحت کے لیے طلب کرلیا گیا۔ دوسری جانب میڈیا احتساب کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی تھی اس میں سفارش کی گئی تھی کہ نئے ٹی وی لائسنس کا اجرا بندکیا جائے،اشتہارات، سرکاری ریڈیو و ٹی وی اور نیوز ایجنسی کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کیا جائے، میڈیا قوانین پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی تشکیل نو کی جائے۔

الیکٹرانک میڈیا کے شعبے میںٹی وی چینلز پر ریٹنگ کی ریس میں بریکنگ نیوز دینے کا سلسلہ بھی حسب معمول جاری رہا۔حالات کی خرابی کا اندازہ اس خبر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر نے دوسرے چینل کے اینکر پرسن کے خلاف اس بات پر مقدمہ دائر کردیا کہ اس کو سلام کرنے کے جواب میں گالیاں دی گئیں۔صحافیوں کی کرپشن کے بارے میں ایک نجی چینل کے ایک پروگرام کے دوران اس کے اینکر کی آف دی ریکارڈ گفتگو ایک دوسرے چینل نے حاصل کرکے اپنے چینل پر چلادی۔ ایک خاتون ٹی وی اینکر کو ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے دھمکیاں ملنے پر کراچی چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہونا پڑا اور وزیراعظم پاکستان کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرنے کے باوجود وہ اب بھی اسلام آباد ہی میں قیام پذیر ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس سخی حسین کی سربراہی میںصحافیوں اور اخباری کارکنوں کے لیے آٹھویں ویج بورڈ کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔صحافی تنظیموں کے مسلسل مطالبے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے اطلاعات کے رسائی کے قانون کی منظوری قومی اسمبلی سے نہیں کرائی جاسکی ہے آخری اطلاعات کے آنے تک سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے اطلاعات تک رسائی کے حق کے مسودہ قانون کو اتفاق رائے سے منظور کرکے کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کردیا تھا تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اس قانون کو جلد پاس کرانے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔

انھوں نے صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے روڈ میپ تیار کرلینے کا بھی اعلان کیا ہے اور شہید صحافیوں کے خاندانوں کی مالی معاونت کی جلد فراہمی کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پریس کونسل آف پاکستان نے معلومات تک رسائی کے قانون کے نفاذ اور اطلاق کے حوالے سے اپنی سفارشات مکمل کرلی ہیں۔دوسری جانب صوبائی حکومتوں میں سب سے پہلے خیبر پختوخواہ کی حکومت نے اطلاعات کی رسائی کے حق کا قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد نافذ کردیا ہے جب کہ بقیہ صوبائی حکومتیںاس قانون کو پاس کرانے کے مراحل طے کرنے میں مصروف ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اشتہارات کے اجراء میں کمی ، بلوں کی ادائیگیوں میں تاخیر اور دیگر مالی مشکلات کے بہانے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے صحافیوں کی برطرفیوں کا سلسلہ اس بار بھی جاری رہا۔المیہ تو یہ بھی رہا کی ایک طرف تو مالی مشکلات کے نام پر ایک طرف تو کئی کئی ماہ تنخواہ بھی ادا نہ کی گئی اور برطرفی کے وقت واجبات بھی ادا نہیں کیے گئے۔ ان حالات کو دیکھ کر پاکستان فیڈرل یونین کی اپیل پر 17دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے گیٹ پر احتجاجی دھرنا دیا گیا تھا جو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی جانب سے صحافیوں کے مسائل جلد حل کرانے کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا۔صحافت کے شعبے کی ممتاز شخصیتوں کے لیے یہ سال اچھا رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔