ترقی پذیرممالک، معاشی مسائل اورکورونا ویکسین

ایم آئی خلیل  اتوار 31 جنوری 2021

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تجارت اور ترقی سے متعلق کانفرنس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبائی مرض کے خاتمے تک ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ادائیگی کو موخر کیا جائے۔ کورونا ویکسین کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ادائیگی کے توازن کو کم کرنے میں مدد کے لیے 500 ارب ڈالرکے امدادی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ بات دراصل یہ ہے کہ پوری دنیا کا نظام طاقتور ممالک اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔ تمام مالیاتی ذرایع، قرض امداد فراہمی کے رولز سب ان کی مرضی سے ہی طے کیے جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مالی امداد فراہم کرنے والے عالمی ادارے کس طرح سے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور جب بات پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں کی آتی ہے تو امداد، قرض کے ساتھ سیاست کڑی شرائط اور دیگر ناگوار باتیں جوڑ دی جاتی ہیں۔

دنیا یہ مطالبہ کررہی ہے کہ آئی ایم ایف کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ جب تک کورونا وبا ہے وہ قرض وصولی کا مطالبہ نہ کرے۔ کیونکہ اس کے باعث غربت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے یہ بات کہی کہ کورونا وبا غریب اور امیر ممالک کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی لیکن اس نے پسماندہ طبقوں اور غریب ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ لاکھوں افراد غربت کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کورونا وبا کی آمد کے ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کی حمایت میں بیان دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی ایک موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور معاشی معاملات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اب بڑا مسئلہ بھوک سے لوگوں کی اموات ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ عالمی رہنماؤں، مالی اداروں کے سربراہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں کہ ترقی پذیر اقوام کو کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے قرضوں میں ریلیف کے لیے ایک منصوبہ شروع کریں۔

چند روز قبل کی بات ہے جب عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ نے متعدد ممالک کی اقتصادی صورت حال کو خلاف توقع مزید خراب قرار دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال اقتصادی لحاظ سے اچھا نہیں گزرے گا، لیکن کوئی ایسا منصوبہ یا لائحہ عمل پیش نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ آئی ایم ایف ان غریب ممالک کوکس طرح اورکتنا بلا سود قرض یا ناقابل واپسی قرض یا امداد وغیرہ فراہم کرے گا۔ دریں اثنا یورپی یونین نے اپنے ممبران کو 300 ارب یورو مدد دینے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کونسل نے جن ملکوں کی مدد کا اعلان کیا وہ یورپی یونین کے نسبتاً غریب ممالک ہیں۔ ان میں البانیہ، بوسنیا،کوسوو وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چند ممالک بھی ہیں جن میں اردن، تیونس وغیرہ شامل ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں پاکستان متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان نے 20 بڑی عالمی معاشی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں دی گئی مہلت میں اس وقت تک توسیع دیں جب تک یہ ممالک اس وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی تباہی سے مکمل طور پر نکل نہیں آتے۔

پاکستان نے کم ترقی یافتہ ممالک کے قرضے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان ترقی پذیر ممالک کے مالی مسائل کے حل کے سلسلے میں جی 77 ممالک سے تعاون کا منتظر ہے۔ گروپ 77 دراصل اقوام متحدہ کی مجموعی معیشت کو فروغ دینا۔ اگرچہ شروعات میں اس کے ارکان کی تعداد 77 تھی لیکن بعد میں بہت سے ملکوں کی شمولیت کے بعد اب اس کے ارکان کی تعداد 134 ہوگئی ہے۔ جن میں چین بھی شامل ہے۔ لیکن خود کو اس کا رکن تسلیم نہیں کرتالہٰذا اب اس گروپ کو 77 کا گروپ اور چین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس گروپ کی بنیاد 15 جون 1964 کو 77 ممالک کے باہمی اعلان سے رکھی گئی۔ جس کا اعلان اقوام متحدہ کے کانفرنس برائے تجارت و ترقی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس گروپ کے قیام کا مقصد اجتماعی معاشی مفاد کا فروغ اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے باہم گفت وشنید کی گنجائش پیدا کرنا ہے۔ اس وقت گیانا کے صدر اس تنظیم کے سربراہ ہیں۔ پاکستان اس گروپ پر زور دیتا چلا آ رہا ہے کہ جی 77 گروپ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اتحاد سے کام لینا ہوگا۔

کورونا وبا کے باعث ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں سخت ترین بدحالی کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان ممالک کی خام مال کی قیمتیں عالمی منڈی میں گر چکی ہیں۔ اس وبا کے باعث پاکستان میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوکر رہ گئے۔ ترقی پذیر ملکوں کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے تیزی سے پیسہ نکالنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی سرمایہ کار ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ نکال کر نسبتاً امیر صنعتی ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف جنوبی ایشیا میں ہی 5 کروڑ افراد اس وبا کے باعث غربت کا شکار ہو جائیں گے۔اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔

اس وقت ترقی پذیر ممالک کے لیے کورونا ویکسین کا حصول بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ کیونکہ ان غریب ملکوں کے حکام کے لیے اہم مسئلہ ویکسین کی دستیابی ہے،کیونکہ امیر صنعتی ممالک نے ان کے پیشگی آرڈرز دے رکھے ہیں۔ اکسفام نے ایک رپورٹ دی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اکثریت 2022 کے آخر تک ہی ویکسین حاصل کرسکے گی۔ لہٰذا ترقی پذیر ملکوں کے گروپ کو مل کر اس کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بہت سی دیگر وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان بھی غریب ملکوں کو اتحاد پر زور دے رہا ہے۔ امریکا نے پہلے ہی 10کروڑ ویکسین کا آرڈر دے دیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو کورونا ویکسین کی بروقت فراہمی کے حوالے سے فوری پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے کورونا وبا کے باعث اور دیگر مالی مسائل کے حل کے لیے ورلڈ بینک سے مزید 12 ارب ڈالر لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ پنج سالہ قرض ہوگا پاکستان کو امید ہے کہ آیندہ ماہ تک ورلڈ بینک سے اس سلسلے میں مشاورت مکمل ہو جائے گی اور مئی میں منظوری کی توقع ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی شدید معاشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جی 20 ممالک پاکستان سمیت بہت سے ملکوں کو مالی رعایت فراہم کرچکے ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی خاطر بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا جاچکا ہے، جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی برآمدات کے باعث نیز معاشی اشاریوں میں بہتری بھی آ رہی تھی، جس پر اوس پڑ سکتی ہے۔ سی این جی کی بندش اور گیس کی قلت جیسے مسائل صنعتی ترقی کو کم کرسکتی ہے۔ بہت سے عالمی معاشی معاملات ایسے ہیں جن کے حل کے لیے جی 77 گروپ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔