کرپشن میں دن دگنی رات چوگنی ترقی

ضیا الرحمٰن ضیا  پير 1 فروری 2021
وزیراعظم اور وزرا ہر محفل میں آئندہ کچھ عرصے میں بہتری کی خوشخبری سنا دیتے ہیں۔ (فوٹو؛ فائل)

وزیراعظم اور وزرا ہر محفل میں آئندہ کچھ عرصے میں بہتری کی خوشخبری سنا دیتے ہیں۔ (فوٹو؛ فائل)

کرپشن کے متعلق عالمی درجہ بندی کرنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 124 واں نمبر ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کی 4 درجے تنزلی ہوئی ہے۔ 2018 میں پاکستان کا نمبر 177 واں تھا، 2019 میں پاکستان 120 ویں نمبر پر آیا، جبکہ 2021 کی رینکنگ میں پاکستان مزید تنزلی میں گرتے ہوئے 124 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ادارے کی طرف سے نیب کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ نیب نے جتنی رقم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ اس میں ناکام رہا۔

یہ تو اس جماعت کے دور کے حالات ہیں جو کرپشن کے خلاف میدان میں اتری اور اس نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک چلا کر انتخابی میدان میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے انتخابات سے قبل لمبے چوڑے دعوے کیے تھے۔ ان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مضحکہ خیز دعویٰ یہ تھا کہ ہم نوے دن میں کرپشن ختم کرکے ملک میں تبدیلی لے آئیں گے۔ لیکن اب ڈھائی سال گزرنے کے بعد وہی کہتے پھرتے ہیں کہ ڈھائی سال میں تو حالات نہیں بدل سکتے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ ڈھائی سال میں ایک ایسے ملک کے حالات مکمل طور پر تبدیل کردینا ناممکن ہے، جس میں ستر سال سے کرپشن کا بازار گرم ہو۔ یہ سب پی ٹی آئی والے بھی جانتے تھے لیکن اس وقت ان پر حکومت کرنے کا جنون سوار تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بڑے بڑے وعدے کرکے ووٹ تو حاصل کرلیے لیکن اب خود ہی روتے پھرتے ہیں اور ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ رہی یہ بات کہ اتنے قلیل عرصے میں کرپشن میں لتھڑے معاشرے کے حالات بدلنا ممکن نہیں، تو یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور ہم حکومت سے ان کے انتخابات سے قبل کے وعدوں اور دعووں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کہ اب تک حالات بہتر کیوں نہیں ہوئے؟ لیکن اتنا مطالبہ کرنے کا حق تو ہمیں حاصل ہے کہ اگر مکمل طور پر بہتری نہیں آسکتی تو کم از کم بہتری کی طرف گامزن تو ہوسکتے ہیں۔ ڈھائی سال کا عرصہ ابتدا کرنے کے لیے تو کافی ہوتا ہے۔ یہ بتائیں کہ کس شعبے میں بہتری آنے لگی ہے؟ کون سا وعدہ ایسا ہے جو وفا ہونے کے قریب ہے یا ایسی سطح پر ہے کہ ہم آئندہ کچھ عرصہ میں اس کے وفا ہونے کی امید رکھیں؟ یقیناً ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ کوئی وعدہ کوئی دعویٰ پورا نہیں ہونے والا اور نہ ہی مستقبل قریب بلکہ بعید میں بھی پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔

وزیراعظم اور وزرا تو اپنی پرانی عادت کے مطابق ہر محفل میں آئندہ کچھ عرصے میں بہتری کی خوشخبری سنا دیتے ہیں لیکن وہ عرصہ بھی گزر جاتا ہے اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی بلکہ پہلے سے بھی خراب ہوجاتا ہے۔

ملک میں کرپشن کا بھی یہی حال ہے کہ کم ہونے کے بجائے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ ہر سال پاکستان کا نمبر عالمی فہرست میں نیچے جارہا ہے اور اگر یہی حال رہا تو فہرست کے سب سے نچلے درجے میں چلا جائے گا اور ہم سوڈان وغیرہ کو دیکھ کر رشک کر رہے ہوں گے۔ نہ جانے حکمران کر کیا رہے ہیں؟ ان کی کارکردگی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان سے باتیں کرانے لگیں تو ایک ایک پریس کانفرنس پر کئی کئی ماہ بھی لگا سکتے ہیں۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے پر آجائیں تو سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لت پت کردیں۔ الزامات کی بوچھاڑ میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ ایک ایک وزیر، ایک ایک مشیر ایسی ایسی باتیں گھڑ لاتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جائیں۔ لیکن کارکردگی دیکھیں تو صفر۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے ان کے تمام وعدوں کا پردہ چاک کردیا ہے اور وزرا کے تمام دعوے شیشے کی طرف صاف کردیے ہیں۔

کرپشن کسی بھی معاشرے کےلیے ناسور ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ کرپشن زدہ معاشرہ پوری دنیا میں ذلت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں جتنی کرپشن پائی جاتی ہے اس نے تو عام شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ آتے ہی پی ٹی آئی کے وزرا نے ماضی کا جھوٹ دہراتے ہوئے فوراً کہا کہ یہ گزشتہ حکومتوں کے دور کے اعدادوشمار ہیں۔ لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وضاحت بھی کردی کہ یہ آپ کے ہی کارنامے ہیں۔ ڈھائی سال گزرجانے کے بعد بھی یہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے سے باز نہیں آرہے۔ کرپشن ختم کرنے کے وعدے کرنے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدا کا خوف کریں اور اب اپنی نااہلیوں کو چھپانے کےلیے گزشتہ حکومتوں پر الزامات کا سہارا لینا چھوڑ دیں اور کچھ کارکردگی بھی دکھائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔