ہر سمت آواز سنانے والے، کاغذ پر چھپے اسپیکر

ویب ڈیسک  منگل 2 فروری 2021
تصویر میں خاتون کے سر کے اوپر کاغذی اسپیکر نمایاں ہیں جس میں لگے 56 اسپیکر 360 درجے میں آوازیں خارج کرتے ہیں۔ فوٹو: شیمنزیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی

تصویر میں خاتون کے سر کے اوپر کاغذی اسپیکر نمایاں ہیں جس میں لگے 56 اسپیکر 360 درجے میں آوازیں خارج کرتے ہیں۔ فوٹو: شیمنزیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی

لائپزگ، جرمنی: مصروف مقامات پر آواز پہنچانے کے لیے اب کاغذ نما مٹیرئیل پر اسپیکر چھاپے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں گول دائروں اور حلقوں کی صورت بھی دی جاسکتی ہے۔ انہیں ماہرین نے ٹی پیپر کا نام دیا گیا ہے۔

جرمنی کی شیمنزیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے برسوں محنت کے بعد کاغذ کی طرح باریک، مختصر اور ایک طرح سے دکھائی نہ دینے والی صورت رکھتے ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ اسپیکروں کو کاغذوں کی رول کی طرح چھاپ کر بنایا جاسکتا ہے اور آواز خارج کرنے والی پٹیوں کی شکل میں ہر جگہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح فوری طور پر کسی بھی جگہ پر سراؤنڈ ساؤنڈ کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

اس طرح کسی گھر یا ہال کو بہت کم خرچ میں بہترین تفریحی اور تعلیمی مقام بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح عجائب گھروں اور ہوائی اڈوں پر خوبصورت چھلے والے اسپیکر لگائے جاسکتے ہیں۔ 2015 میں اس پر جامعہ کے ذیلی ادارے، انسٹی ٹیوٹ فار پرنٹ اینڈ میڈیا ٹیکنالوجی نے کام شروع کیا اور پہلے ٹی بک تیار کی تھی۔ اس کتاب میں الیکٹرونک سرکٹ تھا اور ہر صفحہ پلٹنے پر متعلقہ موضوعات کی آوازیں آتی تھیں۔

ٹی بک کے بعد انہی ماہرین نے ٹی پیپر پر کام کیا اور ان کے بڑے بڑے رول بھی بنائے۔ اس میں کاغذ نما پالیمر کی دو باریک پرتوں کو لیا اور اس کے درمیان ایک اور پرت لگائی ۔ اس میں مختلف مٹیریئل کو ایک روغن (پینٹ) کی صورت میں چسپاں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب لچکدار پنی نما مٹٰیریئل کو بطور سبسٹریٹ استعمال کیا گیا ہے۔

اب تیار ہونے کے بعد کوئی بھی کاغذ میں چھپے اسپیکرز بھانپ نہیں سکتا تاہم پشت سے تیزروشنی ڈالی جائے تبھی اندر چھپے سرکٹ بتاتے ہیں کہ یہ کوئی اسپیکر ہے۔ اس طرح کاغذ میں الیکٹرونک کی روح سمائی ہوئی ہے اور اسپیکر کا 90 فیصد کاغذ پر مشتمل ہے۔ اوپر کسی بھی رنگ کا ڈیزائن اور منظر چھاپا جاسکتا ہے اور ایک کاغذ کا وزن صرف 150 گرام ہے۔

چار میٹر ک کاغذ میں 56 جگہوں سے آواز آتی ہے اور اسے ایک گول دائرے کی صورت دی گئی ہے۔ اب اس دائرے میں کھڑے ہوکر آپ ہر سمت سے آواز سن سکتےہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔