چیز لیبل میں ڈالیں

سعد اللہ جان برق  منگل 2 فروری 2021
barq@email.com

[email protected]

اگرکوئی ہم سے پوچھے کہ موجودہ دنیا کا محسن اعظم کون ہے تو ہم فوراًجواب دیں گے ’’ریڈیوسیلون‘‘ کیوں کہ موجودہ دنیاکو لپیٹ میں لینے والایہ عظیم اسی تندورسے پھوٹاتھا،جسے ’’ریڈیوسیلون ‘‘کہاجاتاتھالیکن جب ’’سیلون‘‘سری لنکا بن گیا تو وہ تندوربھی بند ہوگیالیکن اب ضرورت بھی کیا تھی،بی جمالوتیلی لگا چکی تھی،آگ سارے فرض کولگ چکی تھی اورسیلاب اعظم؟۔

اشک سے میرے فقط دامن صحرا نہیں تر

کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ کمرپانی میں

ہوسکتاہے کہ کسی اورکی تحقیق کچھ اورہو اوربات کو لے جاتے لے جاتے ’’مارکونی‘‘وغیرہ تک پہنچائے لیکن ہماری تحقیق کے مطابق یہ صدقہ جاریہ ،ثواب جاریہ اور بہتی گنگاریڈیوسیلون ہی سے نکلی تھی اوریہ کوئی ریڈیو سیلون ہی میں تھا جس نے ساری دنیا پر نظر ڈال کر کہاتھا۔

ہوگئی دنیا پرانی اب پگھلنی چاہیے

اس ہماسے کوئی گنگا نکلنی چاہیے

اوروہ نکلی اورجب نکلی تو پھر ایسی نکلی کہ جل تھل ہو گیا،سورج ڈھل ہوگیا،آسمان خجل ہوگیا،جسے دیکھ اس بہتی گنگا میں اشنان کررہا ہے ،نہان کررہا ہے اور انسانیت کو لہولہان کررہاہے،کاسے ،گھڑے ،کوزے ،مٹکے بھر رہاہے، عش عش کررہاہے اوراس کے لیے مررہاہے، ریڈیوسیلون نے دنیاکو جو ’’کوہ نور‘‘دیاہے اس کانام ویسے تو ’’اشتہار‘‘ہے لیکن اصل میں امرت کی دھار ہے، ساری دنیاپر سوار ہے اورہرہرمقام پر مصروف کار ہے،  کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں تو اپنے سر داڑھی کو نوچتے ہیں اورخود ہی اپنے آپ کو دبوچتے ہیں کہ۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکسترمیں تھی۔لیکن یہ تو صرف ہمارے ذاتی جذبات ہیں،جلتے دل کے پھپھولے ہیں، اس لیے بولے ہیں ورنہ اصل میں اسے دنیا اوردنیاکے ہر باشندے کا،خزندے پرندے کا اورمردہ زندے کا ’’محسن اعظم‘‘کہنا چاہیے۔

نہ یہ چینل ہوتے،چینلوں میں مینل ہوتے اورنہ ہی عوام الناس سب کے سب ان کے ’’میمل‘‘ ہوتے۔ وہی میمل جو دودھ بھی دیتے ہیں اورانڈے بھی ، جو اون بھی دیتے ہیں اورکھال بھی، جو تیل کے چلتے پھرتے کنویں بھی ہیں، انجیرکے پھول بھی ہیں ،گیدڑسنگی بھی اورناگ منی اور’’منی منی‘‘ غنی غنی بھی اوردھنی دھنی ہنی ہنی بھی کہ کارکن مکھیاں بھی توہوتی ہیں،اس کمال کی چیزیا بلا یاامرت دھارا نے جوکمالات کیے ہیں اورکررہاہے، اس کا پورا بیان ہم ضروربیان کرسکتے ہیں، سب سے بڑی خوبی تو یہ ہے کہ اس نے عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کردیاہے، مردانہ کو زنانہ کردیاہے لیکن اسے بھی چھوڑئیے۔ ایک اوربہت بڑی حقیقت کو افسانہ کر دیا ہے، پرانے زمانے کانظریہ تھا۔

مشک آںاست کہ خودبہ بوید

نہ کر عطار بگوئید

یعنی مشک وہ جو خود اپنی خوشبوسے بولے نہ کہ عطار بولے لیکن اب مشک تب تک نہیں بولتی،گنگ سنگ رہتی ہے جب تک ’’عطار‘‘اس کاپتہ نہ بتائے بلکہ عطارکو خدانے اتنی برکت دی ہے کہ اگروہ پیازولہسن کو بھی مشک قراردے تو وہ بھی درست ہے،مٹی کو سونا، کنکر کوموتی اور چوہے کو ہاتھی ثابت کرنااس کے دوہونٹوں کاکام ہے۔

اب ایک پریکٹیکل بات

تاجر۔جناب میں ایک صابن لانچ کرنا چاہتا ہوں۔

دوسرا۔بجٹ کتناہے؟

تاجر۔ حساب نہیں لگایالیکن صابن بہترین ہوگا۔

دوسرا،صابن کو چھوڑئیے بجٹ کتناہے؟

تاجر۔میں نے کہانا کہ میرے صابن میں قیمتی اورمفید چیزیں ہوں گی۔

مگربجٹ کتناہے؟

تاجر۔بجٹ کاتوپتہ نہیں ٹکیہ کی قیمت بیس روپے ہوگی۔

قیمت کو چھوڑئیے بجٹ کتناہے؟

تاجر۔کونسا بجٹ؟

پبلسٹی بجٹ۔

تاجر۔وہ تو میں آپ سے پوچھنے آیاہوں۔

نہیں یہ آپ بتائیں گے کہ پبلسٹی کے لیے آپ نے کتنابجٹ رکھاہے؟

تاجر۔کتنارکھوں؟

’’جتناگڑڈالیں گے اتناہی حلوہ میٹھاہوگا‘‘۔

تاجر۔دراصل میں صابن اعلیٰ معیارکا بنا رہا ہوں، معمولی پبلسٹی سے بھی کام چل جائے گا۔

’’بالکل نہیں چلے گا بلکہ آپ اورصابن دونوں بیٹھ بلکہ لیٹ جائیں گے‘‘۔

تاجر۔مگر کیاکروں میں تو صابن میں قیمتی اشیاء ڈالوں گا اورزیادہ سے زیادہ فائدہ مند بناؤں گا۔

’’کیسے‘‘؟

تاجر۔جونسخہ میں نے بنایا ہے اس میں ایک ہزار ایک بیماریوں کاعلاج موجود ہے اورقیمتی چیزیں پڑیں گی۔

دوسرا صاحب۔ ایساکریں وہ سب چیزیں ڈالیں،دوہزاردوسودوبیماریوں کاعلاج بھی ڈالیں لیکن پبلسٹی کابجٹ بڑھادیں۔

تاجر۔کتنا؟

جتناخرچہ صابن پر آئے اس سے تقریباً دس گنا زیادہ۔

تاجر۔یہ کیسے ممکن ہے پھر تو مجھے قیمت بھی دس گنا بڑھانا پڑے گی۔

’’اس کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ قیمت بھی آدھی کردیں‘‘۔

تاجر۔یہ کیسے ممکن ہے میں تو دیوالیہ ہوجاؤں گا۔

’’جی نہیں بلکہ منافع اوربڑھ جائے گا‘‘۔

تاجر۔مگر میں وہ قیمتی اشیاء اورفوائدڈالوں گا صابن میں؟

’’کس نے کہاصابن میں ڈالیں، وہ سب کچھ صرف لیبل میں ڈالیں، باقی ہمارا کام ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔