ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی: کیا حقیقت کیا فسانہ

سعد الرحمٰن ملک  جمعرات 4 فروری 2021
ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان کی مینوفیکچرنگ سروسز کا 46 فیصد ہے۔ (فوٹو: فائل)

ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان کی مینوفیکچرنگ سروسز کا 46 فیصد ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے تمام شعبوں کو مسائل کا سامنا رہا، لیکن یہ پاکستان کی زوال پذیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کےلیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان کی نسبت سخت لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے ان کا برآمدی شعبہ بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر بری طرح متاثر ہوا، جس کا خلا پورا کرنے کےلیے عالمی منڈیوں نے پاکستانی تاجروں کو آرڈر دینا شروع کردیے۔

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کرکے سال 2020 کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کےلیے انقلابی سال قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی بلند ترین سطح پر ہے اور ان کےلیے آرڈرز پورے کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ یہ ہماری معیشت کےلیے بڑی خوشخبری ہے جس پر موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر دوبارہ بحال ہوچکا ہے؟ اگر ہاں تو یہ بحالی کس قدر پائیدار (sustainable) ہے؟

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 2020 میں ٹیکسٹائل برآمدات 11 ارب 67 کروڑ ڈالرز کی ہیں، جو 2019 سے 77 کروڑ ڈالرز کم ہیں۔ یہ اعداد و شمار حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ٹیکسٹائل برآمدات بتدریج زوال کا شکار ہے۔ کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر شعبوں کی نسبت ٹیکسٹائل سیکٹر بہت کم متاثر ہوا، جسے بہتری سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار بھی پیش نہیں کیے گئے، جس سے اندازہ ہو کہ کتنے فیصد انڈسٹری کام کر رہی ہے؟ مکمل صلاحیت سے کام کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اگر انڈسٹریز کی ورکنگ میں 50 فیصد بھی اضافہ ہوا ہے تو برآمدات میں بھی 50 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا، جو دکھائی نہیں دے رہا۔

پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت سالانہ 36 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کرتا ہے جو پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے۔ اگر ہم رقبہ، آبادی، وسائل اور معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو اس کی ٹیکسٹائل برآمدات بھی 34 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پندرہ سال میں انرجی بحران اور امن کی خراب صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹریز تیزی سے بنگلہ دیش اور بھارت منتقل ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی ٹیکسٹائل میں ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں انڈسٹریز کےلیے بجلی کے نرخ پاکستان سے آدھے ہیں، بلاتعطل اور مفت پانی فراہم کیا جاتا ہے اور سستی لیبر بھی دستیاب ہے۔ بنگلہ دیش کو کم ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ٹیرف پر بھی چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس طرح بنگلہ دیش اور بھارت میں پاکستان سے 20 فیصد کم لاگت پر مال تیار ہوتا ہے، جو عالمی منڈیوں میں بھی پاکستان کی نسبت سستے داموں دستیاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خریدار پاکستان کے مہنگے مال کو خریدنے کے بجائے بنگلہ دیش اور بھارت کی پراڈکٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان کے ہر شعبہ کی طرح ٹیکسٹائل میں بھی برانڈنگ اور جدت کا فقدان ہے۔ چونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زیادہ تر مال مقامی مارکیٹ میں ہی کھپ جاتا ہے اس لیے عالمی معیار کا مال تیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مقابلے میں ہمارے ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے محض چند ملٹی نیشنل برانڈز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں برآمدی شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت نے 2025 تک ٹیکسٹائل برآمدات دگنا کرنے کا ہدف رکھا ہے اور اس کےلیے اربوں روپے کی سبسڈی پر مشتمل نئی پالیسی بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت بجلی اور گیس کے ٹیرف کم کیے جائیں گے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹریز کےلیے لانگ ٹرم فائنانسنگ اور نئی منڈیوں تک رسائی بڑھانے کے علاوہ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کی کارکردگی بڑھانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان کی مینوفیکچرنگ سروسز کا 46 فیصد ہے، جس کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس شعبے کی ترقی براہ راست کپاس کی پیداوار کے ساتھ منسلک ہے۔ چند سال پہلے تک پاکستان سالانہ 15 لاکھ بیلز پیدا کرکے چوتھے نمبر پر تھا، لیکن اب یہ پیداوار صرف 7 لاکھ بیلز تک محدود ہوگئی ہے۔ کپاس کی صورتحال اس قدر مخدوش ہوچکی ہے کہ کپاس برآمد کرنے والا ملک اب درآمد کرنے پر مجبور ہے، جس پر اضافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کا باعث بننے والے عوامل میں ماحولیاتی تبدیلی، زرعی مداخلات یعنی بیج، اسپرے، کھاد اور پانی کا مہنگا ہونے کے علاوہ حکومت کی عدم توجہی بھی ہے۔

پاکستان میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار دنیا کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے، جس کی بڑی وجہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا فقدان ہے۔ کسانوں کو کپاس کا ایسا بیج دستیاب نہیں جو ماحولیاتی تبدیلی اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتے ہوئے اچھی پیداوار دے سکے۔ زرعی ریسرچ کے ادارے اور یونیورسٹیوں کی ریسرچ صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے زیادہ تر ورائٹیز فیلڈ میں 38 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر ہی ناکام ہوجاتی ہیں۔ زرعی ایمرجنسی پروگرام میں کپاس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی اس اہم فصل کےلیے کوئی کم از کم سپورٹ پرائس یعنی کم تر کامدادی قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس کماد کی فصل کےلیے سبسڈیز اور کم ترین سپورٹ پرائس کا اعلان کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کپاس کے کاشتکار تیزی سے کماد کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔

اگر ہم ٹیکسٹائل شعبے کی دیرپا ترقی چاہتے ہیں تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ساتھ ساتھ ہمیں کپاس کی بحالی کےلیے بھی انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سعد الرحمٰن ملک

سعد الرحمٰن ملک

بلاگر زرعی مسائل پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس وقت محکمہ زراعت حکومت پنجاب میں بطور زراعت آفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔