ایسا ٹیسٹ جو بتائے گا کورونا کے کون سے مریض کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے

ویب ڈیسک  منگل 2 فروری 2021
مائٹوکونڈریل ٹیسٹ سے کورونا مریضوں کی کیفیت کا پیشگی پتہ چلایا جا سکتا ہے، فوٹو : فائل

مائٹوکونڈریل ٹیسٹ سے کورونا مریضوں کی کیفیت کا پیشگی پتہ چلایا جا سکتا ہے، فوٹو : فائل

ماہرین طب ایسا ٹیسٹ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کی مدد سے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ کورونا کے کون سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ 

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، یہ ایسا وائرس ہے جو حیران کن طور پر شکل، ہیئت اور طرز عمل کو بدلتا رہتا ہے اسی طرح اس سے ہونے والی بیماری کووڈ میں بھی ماہرین طب کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سے مریض میں کس حد تک اور کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

کئی مریضوں میں ایسی علامتیں بھی ظاہر نہیں ہوتیں کہ ان کے ذہن میں ٹیسٹ کرانے کا خیال تک بھی آئے جب کہ کچھ میں معمولی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ کورونا وارڈ میں آنے والے نئے مریضوں میں اکثر اپنے قدموں پر چل کر آتے ہیں لیکن اچانک پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر زندہ واپس نہیں جاتے جب کہ کچھ میں علامتیں ایک حد ہی میں رہتی ہیں۔

جن مریضوں میں پیچیدگیاں زیادہ ہوجاتی ہیں وہ اچانک ہوتی ہیں اور محض چار دن سے ایک ہفتے کے درمیان ان کی موت واقع ہوجاتی ہیں اور کئی مریض 14 دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ مریض کی صورت حال سے نابلد وارڈز انچارجز کے لیے اس بات کا انتخاب کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ کس مریض کو کب کیا ٹریٹمنٹ دی جائے۔ وہ علامتیں ظاہر ہونے پر اسی حساب سے علاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاہم تب دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

سائنسی جریدے ’’آئی سی جے ان سائٹ‘‘ میں شامل ہونے والی ایک تحقیق نے معالجین کی یہ مشکل حل کردی ہے، اس تحقیق کے مطابق تیز رفتار بلڈ ٹیسٹ محض ایک دن میں بتاسکتا ہے کہ کورونا کے کون سے مریض میں آئندہ چند دنوں میں پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں خون کے نمونے سے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کو ناپا جاتا ہے اور اس کی مقدار سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔

اس تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ کورنا کے وبائی مرض کا سب سے زیادہ اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹرز مریض کی کیفیت کے حوالے سے پیشن گوئی کرنے سے قاصر ہیں تاہم اب اس ٹیسٹ کی مدد سے اسپتال میں داخل ہونے والے نئے مریضوں کی بیماری کی نوعیت شدید ہونے کا پیشگی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ جن میں دل، سانس لینے والی نالی، پھیپھڑے اور گردوں کا ناکارہ ہوجانا شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی کا مائٹوکونڈریل ڈی این اے ٹیسٹ میں لیول زیادہ آتا ہے تو ایسے مریض کو فوری طور پر انتہائی نگہداشت میں رکھا جائے اور اس کے اعضائے رئیسہ کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر لیول 10 فیصد بڑھ جائے تو سانس میں لینے میں دقت ہوتی ہے اور مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔