اشرافیہ !

علی احمد ڈھلوں  بدھ 3 فروری 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

اپوزیشن اتحاد فی الحال سیاسی بھنور میں غوطے کھا رہا ہے۔کیا تحریکیں ایسے ہوا کرتی ہیں؟ 31جنوری کی وزیر اعظم کے استعفے کی ڈیڈ لائن دی گئی، پھر استعفوں سے منہ موڑ لیا، پھرسب نے سینیٹ الیکشن لڑنے کی حامی بھر لی۔

کامیاب تحریکوں کے پیچھے نظریات ہوتے ہیں، لیڈر شپ ہوتی ہے، مخلصی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عوام ہوتے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم میں کسی کو پختہ نظریات نظر آئے؟ 11جماعتوں کے قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ مخلص پن نظر آیا؟ کیا تحریک میں عوام نظر آئے؟ نہیں ناں! میں نے پہلے ہی عرض کی تھی کہ یہ سیاستدان کبھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہوسکتے، تمام جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔کسی  جماعت  کے قائدین جیلوں میں ہیں تو وہ انھیں رہا کرانا چاہتی ہے۔

کسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسئلہ ہے تو وہ اس کے ساتھ تعلقات بحال کرانا چاہتی ہے اور کسی جماعت کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے، اس لیے وہ اقتدار چاہتی ہے…اور تو اور کسی جماعت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں مگر وہ شکاریوں کے ساتھ ہیں کہ شاید شکار کا بچا کچھا اُسے بھی مل جائے۔

خیر اس تحریک میں 4بڑی جماعتیں ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی(ایف) ، اور اے این پی ہے۔ ان میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا ایک ساتھ چلنا بہت مشکل تھا۔ ماضی میں یہ دونوں جماعتیں اقتدار میں بھی رہی ہیں اور ایک دوسرے کی سیاسی حریف بھی تھیں۔ دونوں پارٹیاں اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک تیسری پارٹی کو حکومت میں لائی ہیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ ماہ کے کالم میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ ’’الغرض سیاست میں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ کبھی وفا نہیں کی اور نہ ہی کبھی ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ وفا کی ہے۔

دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے یا دونوں کا دامن ایک دوسرے کے حوالے سے داغدار ہے، مثلاً بے نظیربھٹو این آر او کے بعدآئیں، توانھوں نے اپنے ساتھ نوازشریف کی واپسی کی شرط رکھی، نواز شریف نے اُس کے بعد اُن کا بھی بھرم توڑا، جب زرداری صدر بنے تو نواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کیسے کریں؟کیوں رسک لیں کہ ان کے لیے سندھ میں اپنا اقتدار چھوڑ دیں۔ ‘‘اب بھی یہ لانگ مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں ، اس کی وجہ بھی ایک نکتے پر متفق نہ ہونا ہے ۔

لہٰذا ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک سیاسی جماعت کبھی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتی، یہ اقتدار کا کھیل ہے۔اس میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ اب مولانا فضل الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں۔ اس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے‘‘ مولانا کایہ نیا ارشاد بتا رہا ہے کہ دریامیں اب طغیانی نہیں ہے۔ لہروں میں ٹھہراؤ آرہا ہے۔ یہ وہی تھے جنھوں نے احتجاج کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف کرنے کا اشارہ دیا۔

سب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوس رہے تھے کہ لانگ مارچ میں اس مردِ جری کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ لیکن اب سب کچھ بدل گیاہے، پہل پیپلزپارٹی نے کی۔ وہ  آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہوئی۔ لانگ مارچ اور استعفے سے گریز اوراب تحریک عدم اعتماد کاڈول ڈال دیا، جس کے لیے آٹھ نومہینے چاہئیں۔ گویا وعدہ فردا۔ ادھر مولانا کے پیچھے ہٹنے کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آدھی پارٹی اسی چکر میں گنوا دی، نواز شریف بھی اب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے ہیں ۔

بہرکیف پی ڈی ایم نے وزیراعظم سے زیادہ اداروں کو ہدف بنایا۔یہ سب بیکار کی مشقت اور لاحاصل ایکسرسائز تھی۔ اس سے پی ڈی ایم کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کی دلی بھڑاس نکل گئی ہو۔ سیاست مگر بھڑاس نکالنے کا فورم نہیں۔ یہ ناممکنات میں ممکنات تلاش کرنے اور نامعلوم سے معلوم اخذ کرنے کی بساط ہے۔

معروف معیشت دان جے اے رابنسن نے اپنی کتابWhy Fail Nations میں لکھا ہے کہ جن ممالک کی قیادت ذہین ہو اور معاملہ فہم ہو تو وہ ترقی کرجاتے ہیں اوروہ ممالک جہاں سیاست اور معیشت چند افراد (اشرافیہ) کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے، وہ غربت کا شکار ہوتے ہیں۔ مصنف نے نائیجیریا کی مثال دی جہاں تیل کی فراوانی ہے لیکن عوام غریب ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ نائجیریا کی اشرافیہ نے تمام وسائل پر قبضہ کررکھا ہے، ایسی ہی صورتحال سے پاکستان دوچار ہے کیونکہ یہاں بھی اشرافیہ نے ملک کے وسائل پر قبضہ کررکھا۔حزب اقتدار بھی اشرافیہ، حزب اختلاف بھی اشرافیہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔