مجسمہ، مالی اور کمیٹیاں

شاہد کاظمی  بدھ 3 فروری 2021
کیا مجسمہ سازی کا یہ کارنامہ مالیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سر انجام دے ڈالا؟ (فوٹو: فائل)

کیا مجسمہ سازی کا یہ کارنامہ مالیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سر انجام دے ڈالا؟ (فوٹو: فائل)

مجسمہ تیار ہوا، اور اتنے بڑے قدوقامت کا مجسمہ یقینی طور پر ایک دن میں تیار بھی نہیں ہوا ہوگا۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے صرف مالیوں نے اپنی مرضی سے یہ مجسمہ تیار نہیں کیا ہوگا۔ مالیوں نے بھی تیار کیا تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ ان مالیوں کی اپنی مرضی نہیں ہوگی بلکہ کوئی نہ کوئی ان کو سپروائز کررہا ہو گا۔ اور جو ان کو سپروائز کررہا ہوگا اس کو کسی نے ہدایات بھی جاری کی ہوں گی۔ یعنی ڈائریکٹ بھی کیا ہوگا۔ اور جس نے ڈائریکٹ کیا ہوگا اس کا یقینی طور پر رابطہ کسی نہ کسی فیصلہ ساز شخصیت سے بھی ہوگا۔

آپ جتنا مرضی سوچ کے قلابوں کو چابک سے بھی دوڑا لیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس قدر قوی الجثہ مجسمہ، فائبرآرٹ کا نمونہ، تجریدی آرٹ کا نمونہ، اسکیپچر یا کچھ بھی، نہ تو مالیوں کے بس کی بات تھی کہ تیار کرسکیں اور نہ ہی یہ کوئی پردوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا یا درختوں کے جھنڈ میں نصب کیا گیا کہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے۔

مصروف جگہ پر یہ مجسمہ نصب تھا، جو اس بات کی علامت ہے کہ یقینی طور پر اس مجسمے کو نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا سب سے پہلے۔ پھر اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے یقینی طور پر کچھ فیصلہ سازی میں ملکہ رکھنے والے لوگوں نے فیصلہ کیا ہوگا۔ پھر ہدایت نامہ جاری ہوا ہوگا اور پھر ہدایت دینے والے نے سپروائزرز کو لائن حاضر کیا ہوگا۔ اس کے بعد باری آئی ہوگی بے چارے مالیوں کی۔

فیصلہ ہوا کہ مجسمہ نصب کرنا ہے تو یقینی طور پر فنڈز کی بابت بھی ذکر چھڑا ہوگا اور جب مختلف سیڑھیوں سے بات سپروائزر تک پہنچی ہوگی تو سپروائزر نے منمناتی آواز میں کہا ہوگا کہ صاحب جی! حالات تبدیلی کی وجہ سے تبدیل ہوکر بہت پتلے ہوچکے ہیں تو کیوں نا ہم مجسمہ بھی کسی ماہر مجسمہ ساز سے بنوانے کے بجائے خود بنائیں۔ کچھ بعید نہیں کہ فائبر کا کمرشل کام کرنے والے کسی دکاندار کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہو، جو بازاروں، چوکوں، شاہراہوں، گھروں کے مرکزی دروازوں پر شیر، گھوڑے، بیل، بکری، بھینس فائبر کے بنانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اور اس بے چارے نے بھی اپنی بساط سی کوشش ضرور کی ہوگی کہ مجسمہ اچھا بنوا سکے۔

لیکن مالیوں کو کیا غرض کہ مجسمہ بنانے کےلیے ہتھوڑی کا وار کہاں پر کرنا ہے کہ اتنا ہی پتھر ٹوٹے جتنا درکار ہے توڑنا۔ اور تیشہ کہاں اور کیسے مارا جائے کہ نقوش ایسے ہی ابھریں اس تیشے سے جیسے حقیقت سے قریب تر صاحبِ مجسمہ کے ہوں۔ لہذا الٹے سیدھے ہاتھ مارے گئے، اور ایک عجوبہ سا تیار بھی ہوگیا۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ سپروائزر سے لے کر ہدایت کار تک تمام افراد نے ہی یقینی طور پر مجسمہ نہ تو دیکھا ہوگا، نہ ہی اس مجسمے کو نصب کرنے کی اجازت کے چکر میں پڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ بس سر پڑا کام ٹپایا جائے۔ اور کام ٹپایا ہی گیا کہ ایک نمونہ سا پارک میں نصب کردیا گیا۔ سونے پہ سہاگہ ہوا کہ سوشل میڈیائی پیادوں تک بات پہنچ گئی اور پھر کسی نے کچھ ہانکی، کسی نے نجانے کون سا ٹکڑا ساتھ لگایا کہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ کسی کو طنز سوجھا تو کسی کو غصہ آیا۔ کہیں ٹویٹر پر لے دے ہوئی اور کہیں فیس بک پر برا بھلا محکمے اور ذمے داران کو کہا گیا۔ نتیجتاً سننے میں آیا کہ پی ایچ اے و ذمے داران نے اس قضیے کو یوں نمٹنانے کی سعی کی ہے کہ نہ صرف مجسمے کو وہاں سے ہٹانے کا کام جاری کردیا بلکہ اب یقینی طور پر انتہائی اعلیٰ مجسمہ بھی نصب کیا جائے گا اور سارے کا سارا ملبہ بیچارے مالیوں پر گرا دیا ہے کہ یہ مجسمہ مالیوں نے بنایا اور انہوں نے ہی نصب کیا۔

یہاں سوال دو ابھرے ہیں۔ پارکس کی تزئین و آرائش کرنے والی اتھارٹی اتنی بے خبر ہے کہ اس کے اہلکار اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کریں، اس فیصلے کو عملی جامہ پہنائیں اور اس جامے کو پھر پارک میں بھی نمایاں لٹکا دیں اور یہ ادارہ بے خبر رہے؟ پھر بہتر نہیں کہ تمام ذمے داران کو گھر بھیج کر اتھارٹی ان مالیوں کے حوالے ہی کر دی جائے کہ آج اگر انہوں نے شاہکار مجسمہ نہیں بنایا تو ہوسکتا ہے مستقل کوشش سے وہ کوئی شاہکار بنا ہی ڈالیں۔

اور دوسری بات یہ کہ جو مجسمہ بنا، کیا اس میں فنڈز کا کوئی استعمال نہیں ہوا؟ کیا یہ مجسمہ سازی کا کارنامہ مالیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سر انجام دے ڈالا؟ اور کیا پندرہ سے بیس ہزار کا ملازم مالی یہ عیاشی افورڈ کرسکتا ہے کہ وہ یہ مجسمہ اپنی مرضی کے تحت اپنے خرچے سے پارک کے اندر نصب کردے؟ اگر تو ایسا ہی ہے پھر مالی قصوروار ہیں اور ان سے محکمانہ باز پرس بھی ہونی چاہیے۔ لیکن ان ملازمین کو قربانی کا بکرا بہرحال نہیں بنایا جاسکتا، نہ ہی بنایا جانا چاہیے۔

اس مجسمے کی تیاری کے فیصلے سے لے کر اس کی تنصیب تک جو بھی اس پورے عمل کا حصہ رہا (فیصلہ ساز بالخصوص) ان کو لائن حاضر کرنا چاہیے اور سرکاری یا اتھارٹی کے خزانے سے اس نمونے کو بنانے کے جتنے اخراجات ہوئے وہ ان فیصلہ سازوں کی جیب سے بمع جرمانہ وصول کرنے کے ساتھ ان کو شوکاز نوٹس، تنبیہی لیٹر، یا کسی بھی طرح کی بازپرس ہونی چاہیے کہ کم از کم وہ خفت کے مرحلے سے تو گزریں کہ انہوں نے غلط کام کیا ہے۔ اور مجسمہ بنانے کے فیصلے سے اس کے نصب ہوجانے تک جس جس نے فرائض سے غفلت برتی اور چشم پوشی کیے رکھی، اس کو بھی یقینی طور پر لائن حاضر کرکے اس کو احساس دلانا چاہیے۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ان اتھارٹیز میں اکثر ملازمین نچلے طبقے کے پسے ہوئے افراد ہوتے ہیں اور بیشتر حوالوں میں تو یہ دیہاڑی دار ہی شمار ہوتے ہیں، لہٰذا ان سے کیا ہم توقع رکھیں گے کہ یہ شاہکار مجسمے بنوا کر لگائیں گے۔ لیکن قوی امکان یہی ہے کہ اس فنکارانہ غفلت پر کوئی کارروائی تو درکنار نیا مجسمہ نصب کرکے کریڈٹ بھی لیا جائے گا۔ بات نوٹس، کمیٹی، یا انکوائری سے آگے بمشکل بڑھے گی اور شومئی قسمت بڑھ بھی گئی تو منتظر رہیے کہ چند مالیوں کو نوکری سے برخاستگی کے پروانے تھما دیے جائیں گے اور باقی سب اچھا قرار پائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔