پھر وہی دھوبی کا کُتّا........

سہیل احمد صدیقی  اتوار 7 فروری 2021
یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔فوٹو : فائل

یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 83
گزشتہ سے پیوستہ
(دوسرا اورآخری حصہ)

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس سوم

{دھوبی کپڑے دھونے‘ کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اس کے لیے اردو میں ایک لفظ مستعمل ہے اور وہ ہے ’’موگری‘‘۔ فرہنگ آصفیہ جلد چہارم ‘ الفیصل ناشران ۲۰۱۹ء (صفحہ نمبر ۲۰۸۸)۔ موگرا: (ہ) اسم مذکر: ایک قسم کا پھول‘ بڑی موگری‘ کوٹنے کا بڑا کوبہ‘ موسل‘ توپ کا سنبسہ۔ موگری: (ہ) اسم مونث: کوبہ‘ زمین کوٹنے اور کپڑے کو کندی (؟) کرنے کا چوبی آلہ۔ کلوخ کوب: ’’جیسے یہ تو کولھو کاٹ کے موگری بنائے ہیں۔‘‘ کندی: (۱) اسم مونث: موگری‘ کوبہ‘ دھلے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑوں کو ‘ کوٹ کر صفائی کرنے کی چیز ‘ کپڑوں کی صفائی جو موگری کے وسیلے سے کی جائے۔ فیروزاللغات (جامع)

(صفحہ نمبر ۱۳۱۷)۔ موگری: (ھ۔م) کوٹنے کا آلہ۔ علمی اردو لغت۔ (صفحہ نمبر ۱۴۵۶)۔ موگری: کوٹنے کا آلہ۔ نوراللغات۔ جلد دوم۔ (صفحہ نمبر ۲۷۱۹)۔ موگری: و ہ آلہ جس سے دھوبی یا دھویا ہوا کپڑا کوٹتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان اور ذخیرہ الفاظ بڑھائیے کے عنوان سے فضل الہٰی عارف کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے ۔ دسمبر ۱۹۷۰ء کے اردو ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر ۱۵۴/۱۶۸۔ پر: ’’وہ آلہ جس سے دھوبی کپڑے دھوکر کوٹتے ہیں اسے موگری کہتے ہیں‘‘ درج ہے۔…………………… مجھ میں اتنی قابلیت ہے نہ علمیت کے بہ یک جنبش قلم ان تمام مرتبین و مولفین اور ان کی مرتب کردہ لغات کو ناکارہ اور فضول اور ناقابل اعتبار قرار دے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور وہ تمام حضرات جو کتا اور کتکا کا فرق نہیں جانتے تھے اب جان جائیں گے اور یہ بھی مان جائیں گے کہ دھوبی کپڑے دھونے یا کوٹنے کے لیے جو چیز استعمال کرتا ہے اسے ’’کتکا ‘‘ نہیں ’’موگری‘‘ کہتے ہیں}۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! موضوع سخن یہ نہیں تھا کہ کتکا ہوتا ہے یا موگری، بلکہ بحث فقط اس نکتے پر مرتکز تھی کہ آیا دھوبی کا کُتّا کوئی غلط العام ترکیب تو نہیں۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس چہارم

{محترم اردو زبان کی کوئی بھی لغت اٹھالیجیے اس میں یہ محاورہ،’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اسی طرح موجود ہے ۱۔ جامع الامثال (اردو ضرب الامثال کا ایک جامع معجم)۔ مرتب: وارث سرہندی۔ نظرثانی : شان الحق حقی۔ مقتدرہ قومی زبان ‘ اسلام آباد ‘ صفحہ نمبر ۲۱۲:’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ اس شخص کے متعلق بولتے ہیں جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ۔ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ ۔ جلد دوم ( صفحہ نمبر ۱۳۲۱)۔دھوبی کا کتا : اسم (م) اِللذی نہ اُللذی ۔ ادھر نہ اُدھر ۔ بے سروپا آدمی ۔ محض نکما اور بیکار آدمی۔ آوارہ گرد ۔ جیسے دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اردو لغت‘ مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔ (صفحہ نمبر ۱۹۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ ایسے شخص کے متعلق بولتے ہیں جو بالکل ناکارہ ہو۔ علمی اردو لغت (جامع)۔ علمی کتب خانہ‘ لاہور ( صفحہ نمبر ۷۶۶)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا (مثل) جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو ‘ نکما اور بے کار آدمی۔ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا۔ فیروزاللغات (جامع)۔ (صفحہ نمبر۶۶۷)۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جس کا کوئی ٹھکانہ ‘ نہ ہو ‘ نکما ۔ بے کار ‘ نہ ادھر کا نہ اُدھر کا}

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب!  اگر آپ نے کالم نمبر 72پڑھا ہوتا تو آپ دیکھتے کہ خاکسار نے کہیں بھی اس محاورے کو غلط قرار نہیں دیا۔ اب آپ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ میں نے ماقبل کیا لکھا تھا:

فرہنگ آصفیہ میں اس پیشے کے متعلق یہ اندراجات شامل ہیں: ۱)۔ دُھلائی (ہندی) اسم مؤنث، کپڑے دھونے کی اُجرت، دُھلوائی۔۲)۔ دُھوب (ہندی) اسم مذکر، شوپ، دُھلاوَٹ، ۳)۔ دُھوب پڑنا (ہندی) فعل لازم، شوب پڑنا، دھویا جانا،۴)۔ دھوبن (ہندی) اسم مؤنث، دھوبی کی بیوی، کپڑے دھونے والی عورت، ایک چڑیا کا نام (پرندہ: دھوبی چڑیا)، ۵)۔ دھوبی (ہندی) اسم مذکر، کپڑے دھونے والا ، برینٹھا}یہ لفظ بالکل متروک اور نامانوس ہے{۶)۔دھوبی پاٹ (ہندی) اسم مذکر، کُشتی کے ایک پیچ کا نام جس میں حریف کو کمر پر لاد کر دے مارتے ہیں۔

کپڑا دھونے کی سِل یا تختہ،۷)۔ دھوبی کا چھیلا (ہندی) صفت، پرائے مال پر اِترانے والا، دورَنگا، ناموزوں لباس والا، ۸)۔ دھوبی کا کُتّا (ہندی) اسم مذکر۔ اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی، اِدھر نہ اُدھر، بے سروپا آدمی، محض نکمّا اور بے کار آدمی، آوارہ گرد جیسے ’دھوبی کا کُتّا ، گھر کا نہ گھاٹ کا‘}اِلَّل لَذی نہ اُلَّل لَذی خالصاً زنانہ فقرہ /کہاوت ہے۔

یہ جب بولاجاتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی معاملے میں تَذَبذُب کا شکار ہو اور کسی ایک طرف ہونے کی بجائے کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتا ہو۔ غیرمستقل مزاج پر بھی منطبق ہوتا تھا{۔ یہاں محض اطلاعاً عرض کردوں کہ راجہ راجیسور رائو اصغرؔ جیسے فاضل نے اپنی ہندی۔اردو لغت میں دھوبی شامل نہیں کیا اور قدرت نقوی نے بھی اس کے ضمیمے میں اس کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا۔ نوراللغات میں فرہنگ آصفیہ سے استفادے کے بعد، لکھا ہے: ’’ دھوبی سے بَس نہ چلے، گدھے کے کا ن کاٹے (مَثَل)]یعنی[ زبردست سے (پر) زور نہ چلا تو کمزور کو دَبالیا۔‘‘ زیربحث کہاوت کے متعلق مولوی نور الحسن نَیّر نے لکھا ہے: ’’اُس شخص کی نسبت بولتے ہیں جو کسی مَصرَف کا نہ ہو، جیسے ’ارے ہندوستانی بھائیو! خدا کے واسطے، کچھ ہاتھ پائوں ہِلائو۔ اب تو گھر بار سب جگہ ترقی کا دَوردورہ ہوچلا۔ اب تو مُنہ (منھ)چھُپانے کو کہیں جگہ نہیں رہی۔ اگر پھسڈی رہ گئے تو پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ سچ مچ دھوبی کے کُتّے، گھر کے نہ گھاٹ کے۔‘‘ نوراللغات میں لفظ ’کَتّا‘ کے ذیل میں لکھا ہے: (ہندی ) بالفتح (یعنی زبر سے)، ایک مشہور قسم کی تلوار جو آگے سے چوڑی اور دُہری دھار کی ہوتی ہے۔

اسی لغت میں لفظ ’کُتّا‘ (جانور) کے دیگر معانی میں لکھا ہے: بندوق کا گھوڑا، گھڑی کا پُرزہ جو چکّر کو روکتا ہے، رَہٹ کی لکڑی جو اُس کے چکّر کے اوپر لگی رہتی ہے، (نیز) کنایتاً پیٹ جیسے یہ کُتّا ایسا پیچھے لگا ہے کہ کہیں سے ہو، پہلے اِسے کھِلادو۔ مزید تفصیل کے لیے لغت ملاحظہ فرمائیں۔ کُتّے کے متعلق فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قسم کی گھاس بھی کُتّا کہلاتی ہے ، جس کی بال کپڑوں میں لپٹ جاتی ہے۔ اسے لیدھڑا بھی کہا جاتا ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ گھاس عربی میں السبط المحدب، فارسی میں خوردال، انگریزی میں ان ناموں سے پکارا جاتا ہے:Buffel grass, African foxtail grass, Foxtail Buffalo grass,Blue buffalo grass, Rhodesian foxtail and Sandbur ۔ اس کا نباتی نام Cenchrus cilié ہے۔ }یہاں رک کر ایک دل چسپ نکتہ بیان کرتا ہوں۔

ہمارے یہاں نیلے پھولوں کی ایک بیل کو ’’کُتّا بیل‘‘ اور اس کے پھولوں کو کُتے والے پھول کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل Asian pigeonwings ہے جس کے بہت سارے نام ہیں اور ہندو اپنی پوجا کی رسوم میں بھی استعمال کرتے ہیں{۔ پروفیسر محمد حسن کی مُرَتّبہ فرہنگ اردو محاورات میں زیربحث کہاوت کو بطور محاورہ شامل کرتے ہوئے یہی لکھا گیا: ’’اِدھر، اُدھر پھرنے والا، نکمّا آدمی‘‘، پھر ایک اور اضافہ یہ کیا گیا: ’’دھوبی کا گیت (کی گت)، دھوبی جانے یعنی جس کا کام، اُسی کو بھاوے۔‘‘ ہم تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجے (یعنی سجتا ہے)۔ ناموراستاد فارسی محترم حضوراحمدسلیم مرحوم (شعبہ فارسی، جامعہ سندھ، جام شورو، حیدرآباد۔سندھ) نے اپنی درسی کتاب ’آموزگارِفارسی‘ میں ’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کا فارسی مترادف بھی تحریر فرمایا تھا: ’’از آنجا ماندہ، از اِین جا راندہ۔‘‘ (طبع چہارم، فروری ۱۹۸۴ء)۔ فرہنگ عصریہ (اردو سے فارسی لغات) از حافظ نذراحمد، پرنسپل شبلی کالج، لاہور کی رُو سے یہ برعکس ہے: ازاین جا درماندہ و ازآنجا راندہ۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ اصل میں دھوبی کا کُتّا نہیں، بلکہ گدھا کارآمد ہوتا ہے، اسی لیے کہاجاتاہے،’’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا یعنی کسی کام کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے اُن کے زیرِبحث مکتوب کا پانچواں اقتباس:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس پنجم

{ دھوبی کا گدھا دھوبی کے لیے بڑے کام کا جانور ہے۔ گھر سے میلے کپڑوں کی لادی/گٹھری لاد کر گھاٹ تک پہنچاتا ہے اور شام کو دُھلے ہوئے کپڑوں کی گٹھری گھر پہنچاتا ہے، دھلنے اور استری ہونے کے بعد کپڑوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے میں بھی دھوبی کی مدد کرتا ہے۔ گھاس پھوس‘ دھوبی کے گھر کی بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا کر گزارہ کرلیتا ہے۔

 

دھوبی کا کتا دھوبی کے کسی کام کا نہیں‘ دھوبی کے لیے وہ بے کار اور نکما جانور ہے۔ کتا وہ نہیں کھاتا جو گدھا کھا تا ہے اور دھوبی کے پاس وہ نہیں جو کتا کھاتا ہے۔ اگلے وقتوں میں نوے فیصد دھوبی ہندو ہو اکرتے تھے۔ ان کے مذہب میں ماس‘ مچھلی حرام ہے لہٰذا کتا گھر پر ہو یا گھاٹ پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے ادھر اُدھر گھومتا پھرتا ہے۔ اور زیادہ وقت آوارگی میں گزارتا ہے۔ نہ گھر کو ٹھکانہ بناتا ہے اور نہ گھاٹ کو۔ اس لیے کہا جاتا ہے ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ یعنی کسی کام کا نہیں۔ بے کار} ۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! راقم کو کسی بھی لغت یا دیگر مآخذ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا کہ آپ کے اس خیال کی تصدیق کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی فاضل اہل قلم نے یہ اظہارخیال فرمایا ہو کہ گدھے کو کُتّے پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے، مگر پھر بھی اس بات کا ہماری بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ کالم زباں فہمی نمبر 72(دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟) کا حاصل کلام کیا تھا:

تمام مآخذ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ بلاسند وحوالہ پھیلائی گئی یہ بات غلط ہے کہ اصل کہاوت ہمارے مشہور جانور، اور مغرب میں علامت ِ وفاداری، کُتّا صاحب کی بجائے کَتّا یا کُتکا یا کُتکہ کے متعلق ہے۔ ٹی وی کے بقراط کو یہی بات ذرا بقراطی انداز میں سمجھانے کے لیے خاکسار یوں سعی کرتا ہے: یہ لسانی قیاس ہے جسے اجتہاد کا درجہ ملنا بعیدازقیاس ہے، چہ جائیکہ اس پر اِجماع ہوجائے۔

٭٭٭

اب آئیے کچھ اور موضوعات کی طرف رُخ کریں۔ چونکہ راقم کا تعلق شعر و ادب کے علاوہ، درس تدریس، نشریات اور تشہیر کے شعبہ جات سے بھی ہے، لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ان شعبوں میں ہونے والے لسانی معاملات سے یکسر پہلو تِہی کرسکے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز پر جس طرح زبان کو شعوری اور لاشعوری طور پر بگاڑا جارہا ہے، اس کے سَدّباب کے لیے خاکسار سمیت متعدد اہل قلم اپنی سی کوشش کیے جارہے ہیں، مگر تخریبی عناصر بظاہر تعمیری عمل پر اس طرح غلبہ کیے ہوئے ہیں کہ دور تک تاریکی یا نیم تاریکی ہی نظر آتی ہے۔

بہرحال ہم مایوس ہیں نہ بددِل، کیونکہ ہمارے پاس ذہن، زبان اور قلم کے بے مثل ہتھیار ہیں جن سے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ ہیچ مَدآں ایک طرف اپنے نجی مسائل سے نبردآزما ہے تو دوسری طرف، یہ اصلاحی اُمور ہیں جن سے یکسر دست کَش ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ قومی زبان تحریک کے زیراہتمام اکیس دسمبر سن دوہزار بیس کو بہادریارجنگ اکادمی، کراچی میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں مجھے مسند ِصدارت پر براجمان ہونے کا شرف ملا تو نہایت اختصار سے عرض کیا کہ ہمیں ہر شعبے کے ماہرین کو یکجا کرکے عملی مساعی کرنی ہوں گی۔ خواہی نخواہی مجھے اس تحریک سمیت متعدد تنظیموں اور افراد کے واٹس ایپ حلقوں کا حصہ بننا پڑا یا بنا دیا گیا، کچھ میں منتظم کی گدّی بھی پیش کردی گئی ، گویا خاکسار گدّی نشیں ہوگیا۔

واٹس ایپ اور فیس بک کی برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے مجھے بعض ایسے احباب کی دوستی نصیب ہوئی کہ ناصرف میرے علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے، بلکہ زبان وادب سے متعلق معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اکثر کم یاب یا نایاب، قدیم وجدید، وقیع کتب کا ہدیہ PDF فائل کی شکل میں موصول ہوتا رہتا ہے۔ انہی حضرات میں محترم سلیم فاروقی صاحب بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے دائرہ علم وادب پاکستان نامی واٹس ایپ حلقے اور فیس بک پر ایک منفرد تحریک بعنوان ’’بھولی بِسری اردو‘‘ اور اس کے تحت ’’اردوبحالی مہم‘‘ کا کچھ عرصے قبل آغاز کیا۔

اس عمدہ تحریک کے نتیجے میں اردو گو طبقے میں یہ شعور اُجاگر ہورہا ہے کہ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں، بِلاضرورت ایسے انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کا متبادل یا مترادف، ماقبل اردو میں موجود ہے۔ خاکسار نے سن دو ہزار پندرہ میں کالم زباں فہمی کے آغاز سے پہلے بھی اپنی تحریروتقریر میں اس نکتے پر بہت زور دیا، مگر بہرحال ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنھ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ، فی الحال یکسر تبدیلی ممکن نہیں۔ یوں بھی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے عوام الناس اور خواص سمیت سب کی طبیعت صاف کردی ہے اور اب اس کے معانی بدل چکے ہیں۔

دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم رکن، سید شہاب الدین (مقیم سعودی عرب) نے یہ دل چسپ تحریر پیش فرمائی:’’تمام ”تعلیم” یافتہ خواتین و حضرات اور ہر عمر کے تعلیم پانے والے بچے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ ریختہ یعنی زبان اردو، اردوئے معلی…ہماری دل ربا، دل آرام، دل پسند، دل فزا، دل افروز، دل آفرید، دل دار، دل موہی، دل خواہی، دل شاہی، دل گیر، دل پذیر، دل خوگر، دل چسپ، دل بست، دل کشا، دل کشاد، دل کشود، دل تافتہ، دل پرور زبان ..ہماری بے توجہی سے، عدم استعمال سے، عدم مہارت و موانست سے، عدم اہتمام و تکلف سے دل گرفتہ، دل آزار، دل بند، دل سوز، دل دوز، دل شوریدہ، دل ربودہ، دل برداشتہ…حتیٰ کہ دل مردہ ہوتی جاتی ہے۔ براہ کرم اسے کتابت میں لائیں، اسے استعمال میں لائیں، ایک دوسرے کو رسائلِ اردو یعنی Messages کو اردو رسم الخط میں لکھ کر بھیجیں اور مقابل کو اسی رسم الخط میں موصول کرنے کی درخواست کریں، ورنہ عدم افادیت سے تو ڈایناسور بھی ناپید (Extinct) ہوجاتے ہیں۔

اس بے چاری الہڑ، بانکی، حسین و جمیل دوشیزہ (اردو) کو بدقسمتی سے سرکاری سر پرستی تو نہ مل سکی، ہائے افسوس! لیکن اگر ہم سب نے مل کر اس دوشیزہ کی زلفیں نہ سنواریں تو اس کے عارض ِگلگوں کی سرخی و تازگی کمھلا جائے گی۔ خدا کے لئے اسے بچا لو، خدا کے لئے اس اپنا لو، خدا کے لئے اسے اپنا بنا لو۔‘‘ دائرہ علم وادب پاکستان کے محترم قائدین ڈاکٹر افتخارکھوکھر صاحب اور جناب احمد حاطب صدیقی، قوم کے بڑوں کے ساتھ ساتھ، بچوں کی اصلاح وتہذیب کے لیے عملاً کمربستہ ہیں اور اُن کی ادارت میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سہ ماہی ادبیات ِ اطفال گزشتہ چار سال سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں قومی زبان اردو کے ہمہ جہت نفاذ کے ضمن میں، ادب ِاطفال کا فروغ بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی کاوش اردو میں اور پھر ایک عرصے کے بعد، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی کی جائے۔ بحمداللہ! راقم نے اس ضمن میں مساعی شروع کردی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔