- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
طلاق سے تین ماہ قبل شادی شدہ جوڑوں کی زبان بدل جاتی ہے
ٹیکساس: شادی شدہ جوڑوں میں طلاق یا علیحدگی سے قبل ان کی زبان تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر وہ اسمِ ضمیر یا پروناؤن کا استعمال بڑھادیتےہیں اور انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں ریڈ اٹ ویب سائٹ پر 6800 صارفین کی دس لاکھ سے زائد تحریروں کو دیکھا گیا ہے۔ یہ پوسٹ شادی ختم ہونے سے ایک سال قبل اور طلاق کے ایک سال بعد پوسٹ کی گئی تھیں۔ اس کا محتاط تجزیہ بتاتا ہے کہ علیحدگی سے تین ماہ قبل زبان کے انداز بالخصوص الفاظ بدل جاتے ہیں اور اگلے چھ ماہ تک وہ معمول پر نہیں آتے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی ماہرِ نفسیات سارہ سراج کہتی ہیں کہ میاں بیوی کو شاید احساس ہوجاتا ہے کہ یہ شادی ختم ہوجائے گی اور اس کا اثر زندگی پر ہونے لگتا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی تناؤ بڑھنے لگتا ہے اور وہ میں اور ہم کا الفاظ زیادہ کرنے لگتے ہیں۔ پھر لفظ ’میں‘ کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو تنہائی تلے دبے فرد کی ذاتی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے شریکِ حیات کا نام بھی کم کم لیتے ہیں۔
اسم ضمیر کا استعمال بڑھتا رہتا ہے اور طلاق والے دن اپنے عروج پر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اذواجی تعلقات پر بات نہ کررہے ہوں تب بھی وہ ان کا استعمال جاری رکھتےہیں۔ پھر اس زبان کا ان بدنصیب جوڑوں کے لہجے سے موازنہ بھی کیا گیا جو عدالت یا کسی اور جگہ طلاق کے لئے جاتے ہیں۔
اس طرح ماہرین نے پہلی مرتبہ ٹیکنالوجی کی مدد سے طلاق کا پتا دینے والے الفاظ کا انکشاف کیا ہے۔ یہ تحقیق پروسیڈنگز ان نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں شائع کی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔