افغان صدر پر سیکیورٹی معاہدے کے لیے امریکی دباؤ

ایڈیٹوریل  جمعـء 3 جنوری 2014
صدر کرزئی مستقبل میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اس مقصد کیلیے وہ اپنے بھائی کو صدارتی امید وار بنانا چاہتے ہیں. فوٹو: فائل

صدر کرزئی مستقبل میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اس مقصد کیلیے وہ اپنے بھائی کو صدارتی امید وار بنانا چاہتے ہیں. فوٹو: فائل

امریکا کے تین بااثر سینیٹروں نے افغان صدر حامد کرزئی کو انتباہ کیا ہے کہ اگر انھوں نے امریکا کے ساتھ باہمی سیکیورٹی کے معاہدے پر دستخط نہ کیے تو اس سے نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے ارد گرد کے پورے خطے کے لیے سخت خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ ان تین سینیٹروں میں جان میک کین‘ لنڈ سے گراہم اور جان براسو شامل ہیں جنہوں نے افغان صدر سے ملاقات کر کے انھیں بتایا تھا کہ امریکی کانگریس چاہتی ہے کہ وہ اس معاہدے پر فوری طور پر دستخط کر دیں جس کے ذریعے امریکی فوجیوں کی ایک خاص تعداد کو 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں قیام کرنے کا حق حاصل ہو جائے۔ویسے تو امریکا اس سال دسمبر تک اپنی افواج افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر چکا ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے خصوصی فوجی دستوں کو افغانستان میں ہی رہنے کا حق مل جائے جو ایک طرف تو عسکریت پسندوں کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف افغان فوجی رنگروٹوں کو تربیت دے سکیں۔ افغان صدر حامد کرزئی اگرچہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر ان کا موقف یہ ہے کہ اس مشترکہ سیکیورٹی معاہدے کی اجازت افغان انتخابات کے بعد نئے صدر کی طرف سے دی جانی چاہیے۔ افغانستان کا صدارتی انتخاب اپریل 2014ء میں ہو گا۔

امریکا کی طرف سے تیار کیے گئے معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ امریکا کو 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں اپنی فوجیں تعینات کرنے کا حق دیا جائے۔ تینوں امریکی سینیٹروں کے بیانات واشنگٹن میں ان کے دفاتر سے علیحدہ علیحدہ جاری کیے گئے ہیں جن میں صدر حامد کرزئی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے اختلافات جلد از جلد دور کریں۔ سینیٹر میک کین نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اختلافات جلد دور ہو جائیں گے اور معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے کیونکہ اختلافات بہت معمولی نوعیت کے ہیں جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتے۔ امریکی سینیٹروں نے صدر کرزئی سے بگرام جیل کے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔ سینیٹر گراہم نے کہا ہے کہ خطرناک قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آنی چاہیے ورنہ اس سے امریکا افغان تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ امریکا کا خیال ہے کہ 650 قیدیوں میں سے 88 بہت خطرناک ہیں جن کی رہائی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں وہ مجرم بھی شامل ہیں جنہوں نے 60 امریکی اور نیٹو فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں 31 دسمبر 2013ء تک مجموعی طور پر صرف دو ہزار ایک سو باسٹھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیںتاہم ان میں رخمی ہونے والے یا عمر بھر کے لیے معذور ہونے والوں کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری طرف مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات صاف شفاف طور پر منعقد ہونا ایسا ہی ہے جیسے کوئی معجزہ رونما ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی افغان حکومت کی دلچسپیاں اور مفادات امریکا سے نہ صرف یہ کہ بہت مختلف ہیں بلکہ کسی حد تک متضاد بھی ہیں اس لیے دونوں کا اتفاق رائے ہونا بہت مشکل ہے۔ادھر ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ صدر حامد کرزئی مستقبل کے سیٹ اپ میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے بھائی کو صدارتی امید وار بنانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ امریکا بھی اس پر تیار ہو جائے‘ بہر حال صدر حامد کرزئی نے بڑی ہوشیاری سے اپنا کارڈ کھیلا ہے‘ پاکستان کے پالیسی سازوں کو افغانستان میں ہونے والی سرگرمیوں پرگہری نظر رکھنی چاہیے تاکہ مستقبل کے حوالے سے افغانستان میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔