آخری سوال۔۔۔؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 3 جنوری 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے ہر دور میں انسانوں کے درمیان محبت بانٹنے والے موجود رہے ہیں لیکن دنیا نے ان کے اس فلسفے کی قدر نہیں کی، یہ عظیم لوگ کہیں شاعروں کے روپ میں، کہیں ادیبوں، صوفیوں، دانشوروں، گلوکاروں، موسیقاروں، اداکاروں، فلسفیوں کے روپ میں انسانوں کے درمیان محبت، اخوت، بھائی چارے کی تلقین کرتے رہے لیکن ان کی آواز کمزور کیوں رہی اور نفرت بانٹنے والوں، تعصب بانٹنے والوں، انسانوں کو تقسیم کرنے والوں، انسانوں کو انسانوں کے قتل پر آمادہ کرنے والوں کی آواز کیوں تیز اور محبت پر حاوی رہی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر خود انسانوں کو سوچنا چاہیے۔ لیکن ایک بدنما حقیقت اس حوالے سے یہ ہے کہ محبت بانٹنے والوں اور انسانوں کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے والوں کی آواز میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور عوام میں ان کے خلاف بدگمانیاں پیدا کی گئیں، ان کے پیغام کو عوام تک صحیح سالم حالت میں پہنچنے سے ہمیشہ ہر محاذ پر روکا گیا اور نفرت و تعصب پھیلانے والوں، انسانوں کو تقسیم کرنے والوں کو یہ زہر پھیلانے کی مکمل آزادی دی گئی، ان کے ایک ایک زہریلے لفظ کو عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے میں ان کی مدد کی گئی۔ سو آج اگر ہم ذرایع ابلاغ پر نظر ڈالیں جو عوام تک ہر قسم کی آواز پہنچانے کا سب سے بڑا، سب سے موثر ذریعہ ہے تو ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ محبت کا قحط کیوں ہے، نفرت کی بھرمار کیوں ہے؟ اس حوالے سے کئی کردار اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لیکن ان کرداروں میں ایک نمایاں کردار ان سیاستدانوں کا ہے جو اپنی گھٹیا خواہشوں، مکروہ مفادات کے لیے انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں، انھیں ایک دوسرے سے برسر پیکار کرتے ہیں، ان کے درمیان رنگ، نسل، قومیت، ذات، پات، دین، دھرم کی تفریق پیدا کرتے ہیں اور انھیں آپس میں لڑوا کر شان سے حکومت کرتے ہیں۔

میرے سامنے انسانوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہے، میں نے قطار میں کھڑے پہلے آدمی سے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں مسلمان ہوں، میں نے قطار میں کھڑے دوسرے آدمی سے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں ہندو ہوں، تیسرے آدمی نے کہا میں سکھ ہوں، چوتھے نے کہا میں عیسائی ہوں، پانچویں نے کہا میں یہودی ہوں، چھٹے آدمی نے جواب دیا میں پارسی ہوں، ساتویں نے کہا میں بدھ ہوں۔ میں نے ایک دلچسپ پاکستانی قطار میں کھڑے آدمی سے سوال کیا تم کون ہو؟ اس نے سینہ تان کر کہا میں پٹھان ہوں۔ دوسرے نے جواب دیا میں پنجابی ہوں، تیسرے نے کہا میں سندھی ہوں، چوتھے نے کہا میں مہاجر ہوں، پانچویں نے کہا میں بلوچ ہوں، چھٹے نے کہا میں سرائیکی ہوں۔ میں نے پھر سوال کیا تمہاری کوئی اور شناخت ہے؟ ایک نے کہا میں سنی ہوں، دوسرے نے کہا میں شیعہ ہوں، تیسرے نے جواب دیا میں اہل حدیث ہوں، چوتھے نے جواب دیا میں دیوبندی ہوں، پانچویں نے کہا میں بریلوی ہوں، اور یہ قطار ختم نہ ہوئی۔

سوال کرتے کرتے میری زبان خشک ہو رہی تھی، میں نے اس قطار پر نظر ڈالی تو یہ اس قدر طویل تھی کہ اس کا آخری آدمی مجھے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس قطار کے پیچھے کئی اور قطاریں تھیں، رنگ، نسل، زبان، ذات، پات وغیرہ کی۔ میں ان قطاروں کو دیکھ کر اس قدر نروس ہو گیا کہ مزید سوال کی ہمت نہ رہی، میں نے چیخ کر ایک آخری سوال کیا ’’کیا تم میں کوئی انسان بھی ہے؟‘‘ میرے اس سوال کی بازگشت دنیا کے ایک کونے سے دنیا کے دوسرے کونے تک پھیلتی چلی گئی۔ مختلف قطاروں میں کھڑے ہوئے لوگ میرے اس آخری سوال پر ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے ان قطاروں میں کھڑے ہوئے سادہ لوح انسانوں سے کہا۔ تم سب اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ ہم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہیں اور اس باپ کو تم آدم کے نام سے پہچانتے ہو، جب تم ایک ہی باپ کی اولاد اور ایک ہی خدا کی مخلوق ہو تو تم اتنے خانوں میں کیوں بٹے ہوئے ہو؟ اتنے ٹکڑوں میں کیوں تقسیم ہو؟ یہ تقسیم تمہاری شناخت کے لیے ہو سکتا ہے ضروری ہو لیکن اس تقسیم کی عمارت کو تم نے نفرتوں، عداوتوں، دشمنیوں، تعصبات کی بنیادوں پر کیوں کھڑا کر دیا ہے؟ کیا اس عمارت کو محبت، بھائی چارے کی بنیاد پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا؟

اس قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں پر جب میں نے نظر ڈالی تو یہ سب مجھے غربت و افلاس کے مارے، بھوکے بیمار ناخواندہ محتاج لوگ ہی نظر آئے، ان قطاروں میں مجھے کوئی غنی کوئی سرمایہ دار، کوئی جاگیردار نظر نہ آیا۔ ان قطاروں کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑوں پر بڑے بڑے محلوں میں بیٹھے غنی، ہنستے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے ان محتاجوں کو دیکھ رہے تھے، ان کے قہقہے مندروں، مسجدوں، گرجاؤں، آتش کدوں، استھانوں کی چوٹیوں سے گزرتے ہوئے ان قطاروں میں کھڑے عقل سے عاری لوگوں تک پہنچ رہے تھے۔ میرے سارے سوال، میری آواز، ان قہقہوں کی گھن گرج میں نقار خانے میں طوطی کی آواز بنی ہوئی تھی۔

سچ خواہ کسی حوالے سے کہا جائے ہر دور میں واجب القتل جرم رہا ہے لیکن سچ بولنے والوں کو تو قتل کر دیا گیا ہے سچ کو قتل نہیں کیا جا سکا اور سچ کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ سچ کے قاتل بھی آج سچ کے سامنے سر جھکائے سچ کی عظمت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ سچ بولنے کے جرم میں سقراط کے ہاتھوں میں زہر کا پیالہ تھما دیا گیا اور گلیلیو کو سزائے موت سنائی گئی، سقراط اور گلیلیو کو واجب القتل قرار دینے والے تاریخ کے صفحات پر نشان عبرت بنے ہوئے ہیں اور سچ بولنے والے تاریخ میں جگمگا رہے ہیں سچ اور جھوٹ کی اس لڑائی میں سچ ہمیشہ ہر جگہ فاتح جھوٹ مفتوح رہا ہے۔

آج بھی اگرچہ سچ اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا وہ ہزاروں سال پہلے تھا لیکن سچ بولنے والے آج بھی موجود ہیں اور سچ کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت اس لیے ہے کہ جھوٹ نے صرف پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگی ہی کو جہنم نہیں بنا دیا بلکہ جھوٹ نے دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ انسانوں کی زندگی کو بھی جہنم بنا دیا ہے۔ انسانوں کی بے شمار خانوں میں تقسیم استحصالی طبقات کا پھیلایا ہوا وہ جھوٹ ہے جس کا ان لوگوں کو احساس دلانا ضروری ہے جو اس جھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ انسانوں کی شناخت کے لیے مختلف حوالوں، مختلف اضافتوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ حوالے یہ اضافتیں جب انسانوں کے درمیان نفرتیں، تعصبات، دشمنیاں پیدا کر کے انھیں ایک دوسرے کا خون بہانے پر مجبور کرتی ہیں تو سچ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

آج ذرا آپ دنیا کے منظر نامے پر نظر ڈالیں آپ کو ہر طرف نفرتیں، تعصبات، دشمنیاں اور ان کے ہولناک نتائج آگ اور خون کی شکل میں ہر جگہ پھیلے ہوئے نظر آئیں گے اور المیہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے، جھوٹوں کی سرپرستی کرنے والے اس آگ اور خون سے محفوظ ہیں اور جھوٹ کو سچ سمجھنے والے غریب عوام اس آگ میں جل رہے ہیں اور ان ہی خاک نشینوں کا خون رزق خاک ہو رہا ہے۔ اس کی ایک مثال وہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری ہے جو افریقہ، مشرق وسطیٰ سے افغانستان اور پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے اور جس کا شکار ہر روز ہزاروں سادہ لوح بے گناہ انسان ہو رہے ہیں۔ جھوٹ بضد ہے کہ وہ سب سے بڑا سچ ہے اور اس سچ کو ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس کا تدارک اگرچہ حکومتوں کی سطح پر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن اس کی نظریاتی بیخ کنی کی ذمے داری ادیبوں، شاعروں، قلم کاروں، دانشوروں اور میڈیا پر عاید ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے متصادم، ایک دوسرے کا خون بہانے والے سادہ لوح اور بہکاووں میں آ جانے والے عوام کو سچ اور جھوٹ میں تمیز ان کے نفع نقصان سے آگاہ کریں۔

اس تقسیم در تقسیم کے شکار عوام کو اگر اس ایک نکتے پر متفق کر دیا جائے کہ وہ ایک جد امجد آدم کی اولاد ہیں اور بلاتخصیص مذہب و ملت سب سے محبت کرنے والے خدا کی وہ مخلوق ہیں جسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ کیا تم سب انسان ہو؟ یہی میرا آخری سوال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔