خواتین ڈاکٹرز اور ان کے مسائل

شکیل فاروقی  ہفتہ 4 جنوری 2014
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

وطن عزیز میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی 80 فیصد اکثریت خواتین پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سے صرف 30 فیصد طالبات ڈاکٹر بننے کے بعد اس پیشے کو اختیار کرتی ہیں جو کہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ اس سنگین صورت حال پر غور و خوض کرنے کے لیے گزشتہ دنوں دی ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز ان نارتھ امریکا (اپنا) نامی تنظیم نے ایک خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا، اس موقع پر تمام شرکا نے بلا تکلف و تامل اپنے اپنے محسوسات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ سیمینار کے دوران ان عوامل کا تجزیہ بھی کیا گیا جو اس صورت حال کو جنم دیتے ہیں۔

وہ زمانے گئے جب ہمارے معاشرے میں خواتین کو کمتر سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا تھا۔ موجودہ حالات ماضی کے حالات سے قطعی مختلف ہیں۔ موجودہ دور میں لڑکیاں زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف لڑکوں کے شانہ بشانہ سرگرم عمل ہیں بلکہ بسا اوقات مقابلے کی اس دوڑ میں لڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔ یہ بات محض علم کے شعبے ہی میں نہیں بلکہ ہنر کے شعبے میں بھی واضح اور نمایاں طورپر دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے خواتین کو بھی طرح طرح کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ سب سے اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی کل آبادی میں خواتین کا تناسب آدھے کے لگ بھگ ہے جس کا بالکل سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں خواتین کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مرد حضرات کا۔ وطن عزیز کی خواتین اپنی قابلیت اور جذبہ خدمت کے اعتبار سے کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔

اس تناظر میں یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ڈاکٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد بیشتر خواتین ڈاکٹروں کو دباؤ کے بعد ہاؤس جاب چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور وہ Specialisation کا رخ اختیار نہیں کر پاتیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اسپیشلائزیشن کی طرف جانے والے چوبیس ہزار ڈاکٹروں میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد صرف سات ہزار ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر جانے والی طالبات کی تعداد میں ہونے والا اضافہ بھی بہت تشویشناک ہے۔ اس کے نتیجے میں خواتین مریضوں کو علاج معالجے کے لیے مرد ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے اور یہ رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زور پکڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری جانب خواتین سے متعلق سرطان کے امراض میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جب کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹروں کا تناسب مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے دیہی اور شہروں کے نواحی علاقوں میں خواتین مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹرنیوں کی تعداد میں کمی کا یہ رجحان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

سیمینار کے شرکا نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ شادی کے بعد خواتین ڈاکٹرز اپنی سسرال والوں کے ہاتھوں مجبور اور بے دست و پا ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے بعض کے دقیانوسی شوہر انھیں پریکٹس کرنے سے روک دیتے ہیں، مردوں کی اس سفاکانہ زبردستی کے مظاہرے آئے دن دیکھے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حوصلہ شکن صورت حال ہمارے معاشرے میں مردوں کے جبر اور بالادستی کا نتیجہ ہے جسے عام اصطلاح میں Male Chauvinism کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ روش ہماری برسوں پرانی روایات کا شاخسانہ ہے جو اب بالکل فرسودہ اور Obsolete ہوچکی ہیں۔ شادی کے بعد ڈاکٹر خواتین کو پریکٹس کرنے سے روکنے میں ان کے شوہروں سے کہیں زیادہ بڑا ہاتھ ان کی ساس کا ہوتا ہے جو پس پردہ اپنے بیٹوں کے کان بھرتی ہیں۔ سب سے بڑا تضاد اور المیہ یہ ہے کہ یہی ساسیں اپنے لاڈلوں کے لیے ڈاکٹر بہوؤں کی تلاش میں گھر گھر کی خاک چھانتی پھرتی ہیں اور نہایت فخریہ انداز میں کہتی ہیں کہ ہم تو اپنے بیٹے کے لیے ڈاکٹر بیوی لائیں گے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اول تو میرٹ کی بنیاد پر میڈیکل میں داخلہ حاصل کرنا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر بننے کے لیے کسی بھی طالب علم کو پورے پانچ سال شب و روز محنت کرنا پڑتی ہے جوکہ بہت بڑی تپسیا ہے۔ ڈاکٹری کی تعلیم پر فیسوں اور کتابوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ قربانی ان والدین کو دینا پڑتی ہے جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے۔ آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی کمر توڑ گرانی کے موجودہ دور میں اپنی اولاد کو ڈاکٹری کی تعلیم دلانا کتنا مشکل کام ہے۔ البتہ ان گھرانوں کی بات اور ہے جہاں روپے پیسے کی خوب ریل پیل ہے اور جو میرٹ کی کسوٹی پر پوری نہ اترنے والی اپنی اولاد کو بھاری بھاری رقوم ادا کرکے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں دولت کے بل بوتے پر تعلیم دلاکر ڈاکٹر بنارہے ہیں۔

خواتین ڈاکٹروں کو ہاؤس جاب اور اسپتالوں میں کام سے روکنے کا ایک اور بڑا سبب انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات ہیں جو آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث لوگوں میں غالب اکثریت جاگیرداروں اور وڈیروں کے بے لگام افراد کی ہے جو اپنی دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر قانون کی گرفت سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ قابل مذمت یہ بات ہے کہ خواتین ڈاکٹروں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بعض واقعات میں مرد ڈاکٹرز بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بال بچے دار ڈاکٹرنیاں گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے مجبور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے حوصلہ شکن حالات میں خواتین ڈاکٹروں کا پیشہ مسیحائی سے منہ موڑنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ راہ فرار اختیار کرلی جائے۔ ہمارے ملک میں خواتین کو ہراساں کرنے سے روکنے کے سخت قوانین موجود ہیں جن پر سختی سے عمل درآمد کرکے اس سنگین مسئلے کو باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک سوال بال بچے دار خواتین ڈاکٹرز کا ہے تو ان کے مسئلے کو ڈے کیئر سینٹرز کی تعداد میں اضافے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یو ایس پاکستان ویمنز کونسل نامی تنظیم خواتین ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دینے میں مصروف ہے جس کا مقصد ممکنہ حد تک ان کی اعانت اور رہنمائی کرنا ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑا اور بنیادی کام فرسودہ سوچ یا دقیانوسی اور روایتی Mindset کو تبدیل کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔