معیشت کی بحالی؟

ایم آئی خلیل  ہفتہ 4 جنوری 2014

نئے سال کے آغاز پر وزیراعظم نواز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کردی۔ اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری بھجوائی تھی۔ قیمتیں مستحکم رکھنے کے باعث حکومت 5 ارب 36 کروڑ روپے کی سبسڈی دے گی۔ سال 2013 کے دوران 7 مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا، جس کے باعث بار بار اشیائے خور و نوش اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ پورے سال کے دوران روپے کی قدر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوتی رہی۔ جس کے باعث درآمدی اشیاء کی قیمت پاکستانی روپے میں بڑھتی چلی گئی اور بہت سی اشیاء کی قیمت میں اضافے کا سبب بننے کی وجہ سے عوام پر مہنگائی کا بار بڑھتا چلا گیا۔ ترقی یافتہ معیشتیں اپنے یہاں قیمتیں مستحکم رکھنے کی خاطر بہت زیادہ توجہ دیتی ہیں، ان کے یہاں افراط زر کی شرح میں اس حد تک اضافہ نہیں پایا جاتا جیسا کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح تیزی سے بڑھتی رہتی ہے۔ پاکستان میں شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہو کہ افراط زر کی شرح سنگل ڈیجٹ پر ہو۔ حکومت اکثر اوقات یہ دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ افراط زر کو 8 یا 9 فیصد تک لایاجائے گا۔ لیکن عموماً افراط زر کا ریٹ 10 فیصد سے زائد ہی رہتا ہے۔

جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں پائے جانے والے افراط زر کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو عموماً ڈیڑھ فیصد سے زائد اور ساڑھے تین فیصد سے کم ہی نظر آتی ہے۔ وہاں کی حکومتیں چاہیں تو ایک طویل عرصے تک اسے زیرو پر بھی منجمد کرسکتی ہیں لیکن عموماً ایسا اس لیے بھی نہیں کیا جاتا تاکہ معیشتیں ترقی کرتی رہیں۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک عام طور پر 5 فیصد سے کم افراط زر کی شرح کو معیشت کے لیے مفید گردانا جاتا ہے۔ جب کہ اس سے زائد افراط زر معاشی ترقی کے لیے ناگوار تصور کیا جاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا افراط زر کے بڑھنے اور گھٹنے سے گہرا تعلق بنتا ہے۔ اب آپ یہ دیکھیے کہ 2013 میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7 بار اضافہ کیا گیا جس کے باعث ہر شے کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسرا بڑا تعلق روپے کی قدر میں کمی بیشی سے بھی ہے، اگر روپے کی قدر گھٹتی رہے گی تو اس کے منفی اثرات مختلف اشیاء کی قیمتوں پر بھی مرتب ہوں گے۔ درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ 100 اشیا جو کہ درآمدی اشیاء کے استعمال سے مصنوعات میں ڈھالی جاتی ہیں ان کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔

حتیٰ کہ زرعی پیداوار بھی متاثر ہوگی کیوں کہ امپورٹیڈ کھاد، کیڑے مار ادویات اور زرعی مقاصد کے لیے منگوائی گئی دیگر مصنوعات کی پاکستانی روپے میں قیمت میں اضافے کے باعث زرعی پیداوار کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور کسان مختلف زرعی پیداوار کی کاشت پر ان کی پیداوار کے حصول کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کیوںکہ لاگت میں اضافے کے باعث مختلف زرعی پیداوار کی کاشت سے منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں کسانوں کی جانب سے گندم، گنا وغیرہ کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ قیمت میں اضافہ نہ کرنے کی صورت میں کاشت نہ کرنے کا فیصلہ بھی سنایا جارہا ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ مختلف کھاد کی قیمت میں 500 روپے فی بوری کمی کردی گئی ہے۔ اس طرح کھاد کی بوریوں پر حکومت سبسڈی فراہم کررہی ہے۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر بھی حکومت سبسڈی فراہم کررہی ہے لیکن ایک طرف سبسڈی دی جارہی ہے تو دوسری طرف سے اتنی ہی رقم کم یا زیادہ کی وصولی کا بھی بندوبست کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جاچکا ہے۔ وقتاً فوقتاً گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ مالیاتی خسارہ جو کہ گزشتہ دور حکومت میں 8.8 فیصد تھا جو کہ معیشت کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اسے کم کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ موجودہ ٹیکسوں کی وصولی میں بھی 96 ارب روپے کمی کے تذکرے کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف مالیاتی خسارے میں بھی کمی لائی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مزید کم نہ ہوئیںتو آیندہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف ڈالر اور روپیہ کی رسہ کشی زوروں پر ہے، اس کے ساتھ ہی تیل کا درآمدی بل بڑھ رہا ہے اور تجارتی خسارہ بھی بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔ اگر جی ایس پی پلس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے برآمدات میں ڈیڑھ تا دو ارب ڈالر کا اضافہ کرلیا جاتا ہے، اس کے علاوہ جس طرح حکومت کادعویٰ ہے کہ کولیشن فنڈ سے ڈیڑھ ارب ڈالر وصول ہوںگے، فلاں جگہ سے پیسے مل جائیں گے، اتنا فنڈ مل جائے گا۔ پھر بھی معیشت سسکتی ہوئی نڈھال رفتار سے قدرے آگے بڑھے گی اور معاشی ترقی کی شرح 4 تا 5فیصد تک جاسکتی ہے، بشرطیکہ جی ایس پی پلس کو مدنظررکھتے ہوئے یا کسی اور طرح سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوجائے۔

2013 میں جس طرح سے بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے اگر اس سال بھی یہ سلسلہ چلتا رہا تو مہنگائی کولگام دینے کی باتیں محض خام خیالی ہی ثابت ہوگی، لیکن حکومت کو بھی چاہیے کہ اپنی رٹ کو مضبوط طریقے سے قائم کرے۔ صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں پابند کیاجائے کہ وہ اپنے یہاں مارکیٹ پرائس سسٹم کی مانیٹرنگ فعال طریقے سے کریں۔ ہر وہ راہ مسدود کردی جائے جس سے مصنوعی طور پر مہنگائی کا عذاب کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کسی طرح سے پٹرولیم مصنوعات کو آیندہ جون تک مستحکم رکھتی ہے، بڑے پیمانے پر نئے نوٹ چھاپنے کا ارادہ ترک کردیتی ہے، غیر ضروری درآمدات اور دیگر طریقوں سے تجارتی خسارہ کم ہوجاتا ہے اور آئی ایم ایف کی جتنی بھی شرائط ہوتی ہیں ان میں سے 80 فیصد سے پاکستان کی معیشت کو ابھی تک شدید نقصان ہی پہنچتا رہا ہے لہٰذا اگر ان کو قائل کرکے ان کی بے جا پابندیوں سے چھٹکارے کے ساتھ قرض سے بھی گلوخلاصی حاصل کرلی جائے تو آیندہ چند برسوں میں ہی پاکستان کی معیشت اور عوام دونوں ہی ریلیف محسوس کریں گے۔

لیکن اس وقت پاکستان کی معیشت 2013 کی ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔ گزشتہ سال بھی دو دفعہ تیل کی قیمتیں برقرار رکھی گئی تھیں۔ اس سال بھی اگر سال گزشتہ کی طرح سلسلہ جاری رہا، قیمتیں زیادہ بڑھاکر پھر کم سے کم گھٹائی جاتی رہی تو پھر مہنگائی بھی اسی طرح بڑھتی رہے گی۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا تو بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوکر افراط زر کی شرح بھی بڑھتی رہے گی۔ ان تمام باتوں کے باوجود حکومت کی بہترین معاشی کارکردگی کے باعث 2014 میں معیشت کی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔اس طرح معیشت کی بحالی کے لیے درست سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔