ننھا فرشتہ سبق دے گیا

سید بابر علی  ہفتہ 4 جنوری 2014

نئے سال کی پہلی صبح۔۔۔۔ نئے سورج کے ساتھ نئے دن کا آغاز، ہر سال کی طرح اس سال کے لیے بھی کچھ نئے ’’گول‘‘ سیٹ کرنے تھے۔ خود کا احتساب کرنا تھا۔ سال گزشتہ کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم کرنا تھا۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا تھا۔ سرد رات کی تاریک فضاؤں میں گونجنے والی فائرنگ، پٹاخوں اور بغیر سائلنسر موٹر سائیکلوں کی ’’سریلی‘‘ آوازوں نے نیند کو کوسوں دور کردیا تھا۔ گرم بستر میں ماضی، حال اور مستقبل کا سوچتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی ان غریبوں کا خیال ذہن میں نہیں آیا، جن کے لیے نئے سال کا جشن منانے سے زیادہ اہم جلانے کے لیے لکڑی، کھانے کے لیے کھانا اور سونے کے لیے بستر کا حصول تھا۔ اپنے بارے میں، صرف اور صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے سوچتے کب نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا پتا ہی نہیں چلا۔ نئے سال کی پہلی صبح ’’پرانے سال‘‘ کے الارم نے نیند سے بیدار کیا تو سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا 2013 میں تھا۔ چرمی جیکٹ، دستانے، ہیلمٹ اور سردی سے بچاؤ کے لیے ضروری تمام ’’آلات‘‘ سے لیس ہونے کے بعد شہر کراچی کی ’’شاہی سواری‘‘ موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے دفتر کی راہ لی۔

کچھ سردی کا اثر اور کچھ ’’نئے سال‘‘ کی خوشی میں ایک دکان سے حلوہ پوری کھانے کا قصد کیا۔ ایک صحافی ہونے کی وجہ سے گرد و پیش کا مشاہدہ کرنا عادت بن چکی ہے جس سے مغلوب ہوکر اطراف کا طائرانہ جائزہ لیا۔ سب کچھ پچھلے سال جیسا ہی تھا لیکن اچانک ایک منظر دیکھ کر آنکھیں پتھرا گئیں۔ اس دکان پر کام کرنے والے تمام افراد نے سردی سے بچاؤ کے لیے سوئیٹر، گرم چادریں اور اونی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں لیکن!!

ان میں ہی سے ایک ’’ننھا فرشتہ‘‘ جسے ہمارے معاشرے میں عرف عام میں ’’چھوٹا‘‘ کہا جاتا ہے، سرد موسم سے بے نیاز باریک کپڑے کے قمیص شلوار میں ملبوس خوش اخلاقی سے میزوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ گاہکوں کو بھاپ اڑاتی چائے اور حلوہ پوری پیش کر رہا تھا۔ اتنے سرد موسم میں جب شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والا دکان کا نوجوان مالک بھی چادر اور سوئٹر پہنا ہوا تھا تو کیا یہ بچہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق تھا یا اس نے سردی سے بچاؤ کے لیے کوئی غیر مرئی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا، وہ پاکستان کے ان لاکھوں بچوں میں سے ایک تھا جن کے دن کا آغاز گھر والوں کے لیے رزق حلال کی تلاش سے ہوتا ہے۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو رگڑ کر سردی کی شدت کم کرنے کی کوشش میں مصروف اس ’’معصوم فرشتے‘‘ کو میں نے اپنے پاس بلا کر پوچھا ’’تم نے جیکٹ یا سوئٹر کیوں نہیں پہنا ہوا ہے، کیا تمہیں سردی نہیں لگ رہی۔‘‘

’’وہ دراصل اندر چھولے بن رہے تھے تو گرمی کی وجہ سے اتار کر اندر ہی رکھ دی تھی۔‘‘ معصوم لہجے میں اپنی غربت کا بھرم رکھنے والے اس خوددار ’’فرشتے‘‘ کے جواب نے چند لمحے کے لیے مجھ جیسے ناشکرے انسان کو سر جھکانے پر مجبور کردیا۔ اتنی کم عمری میں اتنی سمجھ داری اور خود داری!

’’ویسے بھی میں بارہ بجے تک یہاں ہوتا ہوں، اس کے بعد مدرسے چلا جاتا ہوں، جہاں سے میں قرآن مجید حفظ کر رہا ہوں، مجھے تو بس صبح تھوڑی سی سردی لگتی ہے۔‘‘ کشادہ پیشانی اور روشن چمک دار آنکھوں والے اس ’’معصوم فرشتے‘‘ کی دوسری بات نے حقیقت آشکار کردی۔ وہ حقیقت میں فرشتہ تھا کیوں کہ فرشتے ہم انسانوں کی طرح ریاکار اور خود غرض نہیں ہوتے۔ لیکن اس فرشتے نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا اور مجھے خود احتسابی پر مجبور کردیا۔ میں اپنا اور اپنے حلقہ احباب کا موازنہ اس معصوم بچے سے کرنے لگا۔ ہم مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھانے کے بعد کبھی ذائقے کی شکایت کا سامنا کرتے ہیں تو کبھی ایک دو بار پہننے کے بعد نئے کپڑوں میں نقص نکال کر انھیں کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں اور ان تمام نعمتوں کے بعد بھی شکایات کی لمبی فہرست۔

میں نے اس کے مالک سے پوچھا، کیا اس بچے کو سردی نہیں لگتی، جس کا جواب مجھے اس کی کھسیانی ہنسی سے مل گیا اور میں مردہ دلی کے ساتھ واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’آپ کے لیے چائے کا آرڈر دوں؟‘‘ اس نے آکر سکوت توڑا۔ملامت کرتے ضمیر کو نظر انداز کرکے میں نے اسے چائے کا آرڈر دیا اور ٹھیک اسی لمحے میں نے فیصلہ کرلیا، نہ صرف نئے سال بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے تمام نئے برسوں کے لیے اپنے اہداف کا تعین کرلیا۔ اس دانش مند بچے کی خود داری، خوداعتمادی نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھا دیا۔ آج پہلی بار مجھے پتا چلا کہ نئے سال کا پہلا دن کیا ہوتا ہے، زندگی کا مقصد کیا ہے۔

کسی نیک کام کے آغاز کے لیے آپ کو کسی قافلے کی نہیں صرف آگے بڑھنے کی لگن اور نیک نیتی درکار ہے۔

2014 کا آغاز مجھے یہ پیغام دے گیا کہ اگر ہم صرف اپنے بارے میں سوچنا چھوڑ کر اجتماعی سوچ اپنالیں اور اجتماعی بہبود کی فکر کرنے لگیں تو بہت سے مسائل اس ملک میں نظر ہی نہیں آئیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگ جن کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ گرم ملبوسات ہیں، وہ کچھ ایسے غریبوں کو بھی دے دیں۔ ضروری نہیں کہ ایسا صرف نئے سال کے موقع پر کیا جائے کیوں کہ کوئی بھی اچھا کام جس دن، جس سال، شروع کیا جائے وہ دن، نیا دن اور وہ سال، نیا سال بن جاتا ہے ورنہ بقول شاعر؎

اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی
تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسماں بدلا ہے، نہ بدلی یہ افسردہ زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
پچھلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارک بادیں
سب ہی کیا بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔