وراثتی سرٹیفکیٹ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 7 فروری 2021
advo786@yahoo.com

[email protected]

صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے پاس کردہ وراثتی قانون Letter of Administration of Succession Certificate Act, 2020 کی منظوری دے دی، ابتداً اس قانون کا اطلاق اسلام آباد کی حدود میں ہو گا۔

اس سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ قانون حکومت کی جانب سے عوام الناس کو فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزیدکہا کہ اس سے قبل عدالتوں سے وراثتی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں 6,7 سال لگ جاتے تھے پیسہ بھی خرچ ہوتا تھا۔ یہ قانون فراڈ اور جعل سازی کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے اس قانون کے تحت نادرا کو درخواست دینے والے مرحوم کے ورثا کو Family Registration Certificate (FRC) کیمطابق 2 ہفتے کے اندر وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کر دے گا۔

دیگر صوبوں نے بھی اس قسم کی قانون سازی کا عندیہ دیا ہے، سب سے زیادہ مستعدی سندھ حکومت نے دکھائی ہے اس کی کابینہ کی منظوری کے بعد سندھ اسمبلی Sindh Letter of Administration and Succession Certificate Bill 2021 پاس کرکے منظوری کے لیے گورنر سندھ کو ارسال کردیا ہے۔ وراثتی ایکٹ 2020 کیمطابق نادرا مرحوم کے ورثا کی درخواست پر متوفی کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کے سلسلے میں FRC کیمطابق وراثتی سرٹیفکیٹ یعنی لیٹرآف ایڈمنسٹریشن یا سکسیشن سرٹیفکیٹ جاری کرے گی اگر اس سلسلے میں کوئی تنازعہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

نادرا آن لائن پورٹل مہیا کرے گی جس میں متذکرہ سرٹیفکیٹ اور لیٹر کا ریکارڈ اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔ درخواست برائے وراثتی سرٹیفکیٹ نادرا کے قائم کردہ متعلقہ دفتر جس کے دائرہ اختیار میں مرحوم موت کے وقت رہائش پذیر تھا یا جس کے دائرہ اختیار میں اس مرحوم کی املاک واقع ہو دائر کی جائے گی۔ درخواست ملنے پر عوام الناس کی اطلاع کے لیے نادرا کے ویب پورٹل اور ایک اردو اور ایک انگلش اخبار میں شایع کرکے تشہیر کی جائے گی اس کے لیے نادرا اپنی فیس اور اخباری اشتہارکے اخراجات بھی لے گی۔ نادرا وراثتی سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لیے Facilitation Unit قائم کرے گی۔

درخواستیں وصول کرنے اس کی جانچ پڑتال کرنے اور دفتری کارروائی کے لیے افسران، اسٹاف، ایکسپرٹس، ایڈوائزرز اور دیگر ملازمین کا تقرر کرے گی۔ اگر اشتہارات مشتہر ہونے کے 14 دن کے اندر کوئی اعتراض یا دعویٰ داخل نہ ہوا ہو تو درخواست گزار اور تمام ورثا کا بائیومیٹرک کرے گی، جہاں ورثا کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہو سکے گی تو ورثا کو ذاتی طور پر طلب کرے گی اور دیگر جدید ڈیوائس ورثا کی شناخت کے لیے استعمال کرے گی۔ بائیو میٹرک تصدیق ملک و بیرون ملک مقرر کردہ دفاتر سے بھی کی جاسکے گی۔

اس قانون کے تحت عدالتوں کے اختیار پر بھی قدغن لگائی گئی ہے کہ کوئی عدالت لیٹر آف ایڈمنسٹریشن یا سکسیشن سرٹیفکیٹ کی سماعت کے لیے اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکے گی تاوقتیکہ نادرا درخواست منظورکرنے سے انکار نہ کردے۔ وراثت ایک ایسا معاشرتی مسئلہ ہے جس سے تقریباً ہر خاندان کوگزرنا پڑتا ہے، اس ضمن میں بہت سے قانونی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کبھی کبھی یہ مراحل بڑے پرپیچ بھی بن جاتے ہیں۔

مذکورہ وراثتی ایکٹ 2020 کے بارے میں جو دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ قانون فراڈ اور جعل سازی کو روکنے اور عدالتوں میں سالہا سال مقدمات کی سماعت کوکم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس کے تحت مرحوم کے ورثا کو دو ہفتہ کے دوران وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کردیا جائے بظاہر بڑا خوش کن اقدام نظر آتا ہے،لیکن عملی طور پر ایسا ناممکن نظر آتا ہے، اس سے مزید قباحتیں بھی پیش آسکتی ہیں۔

عدالتیں وراثتی سرٹیفکیٹ بہت چھان بین کرکے متعلقہ اداروں، محکموں، بینکوں، رجسٹرار، نادرا اور مفتیان کرام وغیرہ اور غیر جانبدارانہ گواہان کی تصدیق و حلفی بیانات کے بعد جاری کرتی ہیں اس عدالتی کارروائی کا دورانیہ 6,7 سال نہیں بلکہ چند ماہ پر محیط ہوتا ہے اور اس کارروائی کے بعد کسی غلطی یا کسی وارث کی حق تلفی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ہمارے ریکارڈ رکھنے والے اداروں کے معاملات میں بہت سی خامیاں سامنے آئی ہیں ۔

نام، ولدیت، جنس، رشتہ اور عمر وغیرہ تک کا غلط اندراج کردیا جاتا ہے جسے درست کرانے کے لیے شہریوں کو نادرا کے دفاترکے چکر لگانا پڑتے ہیں اور ادارے کی غلطیوں کو درست کرانے کے لیے عدالتوں سے احکامات حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ عدالتوں میں اس قسم کے مقدمات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں نادرا کو وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اختیارات دینے سے کیا صورتحال ہوگی اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔

بہت سے شہری اپنے حقوق سے محروم ہو جائیں گے اس کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہو جائے گی۔ جن درخواستوں میں ورثا میں نابالغ بچے یا Special Persons یعنی ذہنی مریض شامل ہوں گے نادرا ان کے وراثتی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرسکے گی۔ مسلم فیملی لا آرڈیننس مجریہ 1961 کے سیکشن نمبر 4 کے تحت مرحوم کی زندگی میں انتقال کر جانیوالی اولاد کے ورثا بھی مرحوم کی وراثت میں حصہ دار ہوتے ہیں لیکن فتوئوں اور FRC میں ایسے ورثا کے نام شامل نہیں ہوتے ہیں، وراثت میں ان کے حصے کی تقسیم کا تعین عدالتیں کرتی ہیں لہٰذا ادارے کے FRC کیمطابق وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے ایسے ورثا اپنے حصے سے محروم ہو جائیں گے۔

عدالتیں ملک کے مختلف حصوں اور بیرون ممالک واقع مرحوم کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد، واجبات، تمسکات، وصیت وغیرہ کے سلسلے میں اس کی نوعیت، اس کی مالیت کے تعین کے لیے کمشنر مقررکرکے معائنہ کرواتی ہے، رپورٹیں طلب کرتی ہیں، بینک لاکرز تڑواتی ہیں تمام ثبوتوں اور دستاویزات قانون کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے پھر اس شفاف و قانونی طریقہ کارکے بعد یہ وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس بنا پر قانونی حلقوں کی جانب سے اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

حکومت سندھ نے جو Sindh Letter of Administration of Succession Certificate Bill 2021 منظوری کے لیے گورنر سندھ کو بھیجا ہے سندھ بار ایسوسی ایشن نے اس کی سخت مخالفت کردی ہے اور گورنر سندھ سے کہا ہے کہ وہ اس بل پر دستخط نہ کریں اور اسے نظرثانی کے لیے واپس سندھ اسمبلی کو بھیج دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے اس سلسلے میں بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سے جو عملی تجربہ رکھتی ہیں مشاورت کرکے اس کے نقائص دورکیے جائیں، ورنہ اس کے نفاذ سے آسانیوں  کے بجائے مشکلات درپیش آئیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔