جھوٹ بولتے ہوئے لوگ آواز دھیمی رکھتے ہیں، تحقیق

ویب ڈیسک  منگل 9 فروری 2021
فرانس کی سوربون یونیورسٹی نے صرف آواز کے اتار چڑھاؤ سے جھوٹ بولنے کا پتا لگانے پر تحقیق کی ہے۔ فوٹو: شٹراسٹاک

فرانس کی سوربون یونیورسٹی نے صرف آواز کے اتار چڑھاؤ سے جھوٹ بولنے کا پتا لگانے پر تحقیق کی ہے۔ فوٹو: شٹراسٹاک

پیرس: غلط بیانی کرتے وقت اکثر لوگ دھیما بولتے ہیں، جملے کے درمیان میں اداکردہ الفاظ پرزور کم دیتے ہیں اور یوں ان کی آواز بھی جھوٹ کی چغلی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

اس ضمن میں فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے جس میں صرف آواز کی شدت اور جھوٹ کے درمیان تعلق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تحقیق کے لیے فرانسیسی قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق (سی این آر ایس) نے بھی کلیدی کردار کیا ہے۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ آواز کی پچ، بولنے کی شرح اور شدت بھی بتاسکتی ہے کہ بولنے والا جھوٹ بول رہا ہے یا سچ سے کام لے رہا ہے۔ اس تحقیق میں قومی موسیقی اور آواز کی تجربہ گاہ کے علاوہ پرسیچول سسٹمز لیبارٹری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ کسی کی آواز میں غنایت (میلوڈی) اس کے سچ بولنے کی معلومات دے سکتی ہے۔ ایسا یوں ہوتا ہے کہ دماغ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے اور یوں الفاظ پر زور بھی کم ہوجاتا ہے کیونکہ بولنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے۔

اس کیفیت کو پروسوڈی بھی کہا جاتا ہے جس میں الفاظ اور جملوں کی بجائے آواز کے زیروبم کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو دیکھا جائے تو کم ازکم انگریزی، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے یعنی تینوں زبانوں میں جھوٹ بولنے والے یکساں انداز سے بات کرتے ہیں۔ یہ کیفیت دماغ میں پروگرام ہوتی ہے اور اس سے الگ ہوکر کچھ کرنے کے لیے دماغ کو بہت تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے پکا جھوٹا بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

اچھا اب اس تحقیق سے معلوم کرتے ہیں کہ سچ بولنے اور مخلص ہونے کی دلیل کیا ہے۔ اس کا پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ ایماندار شخص لفظ کے آخر میں آواز کی خاص پچ کو بلند کرے گا اور وہ تیزرفتاری سے بات کرے گا۔

اس کے برخلاف جھوٹ بولنے والا فرد آواز کو دھیما رکھے گا، الفاظ پر زور نہیں دے گا اور ان کی پچ بھی بہت دھیمی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔