سینیٹ الیکشن 2021ء: ارکان کی خریدوفروخت کا تدارک ممکن ہوپائے گا؟

عبید اللہ عابد  بدھ 10 فروری 2021

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

 گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہوجائے گی تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔

مجموعی طور پر 104ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرہونے والے34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ18کا تعلق حکمران جماعت  یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس وقت 30سینیٹرز ہیں جن میں سے17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے14میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین،  ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں جن میں سے ایک ریٹائر ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہوجائے گا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا جو ریٹائر ہوجائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائر ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ ن اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلزپارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔

مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ

یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیںکہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے’’ انھیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق’’ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیے گئے تھے۔ ‘‘ اب کی بار  وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ’’ ترقیاتی فنڈ ‘‘ کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس ، پچاس کروڑ روپے دیے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا ؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ ’ہاں ‘ میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے  کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے ، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ برس نومبر ہی میںکہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔

ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو  پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے ، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی موقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کردیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ ’ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔

مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ ’’ لگتا ہے آرڈی ننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے۔‘‘ جبکہ جسٹس عمرعطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا: ’’ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرا سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انھیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ’ شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کررہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ’ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا ‘۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔ اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔

وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں  سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوجائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک ، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈبلاک کے نام پر قابو کیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

٭ریٹائر ہونے والی نمایاں شخصیات

مسلم لیگ ن کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر( سینیٹ)  راجہ ظفرالحق ، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا(پیپلزپارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان ، وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز ، سابق وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ ن)، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان ، سابق وزیرداخلہ رحمان ملک (پیپلزپارٹی) ، سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک(پیپلزپارٹی)۔ ایم کیوایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔

دیگر ریٹائرہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی ، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان ، اسد اشرف ، غوث محمد نیازی ، کلثوم پروین ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ، جاوید عباسی ، نجمہ حمید ، پروفیسر ساجد میر ، راحلیہ مگسی ، سلیم ضیا اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلزپارٹی کی  سسی پلیجو ، اسلام الدین شیخ ، گیان چند، یوسف بادینی ، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈئر جان کینتھ ولیمز ،لیاقت ترکئی ، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا ، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگتی ، منظور احمد  اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرا ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیرشاہی ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، جبکہ آزاد ارکان میں اورنگ زیب خان ، مومن خان آفریدی،سجاد حسین طوری  اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو چیرمین سینٹ بنانے کے لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں معاملات طے پا گئے

اسلام آباد سے ارشاد انصاری

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چودہری پرویز الہی نے تجوز دی ہے کہ پنجاب میں خالی ہونے والی گیارہ نشستوں پر اپوزیشن اور حکومت اپنی اپنی عددی  اکثریت کی بنیاد پر اپنے حصے کے مطابق نشستیں لے لیں انکی تجویز ہے کہ پنجاب میں ن لگ پانچ اور حکومت  اور اسکے اتحادی چھ سیٹیں لے لیں جن میں سے ایک سیٹ ق لیگ کے پاس چلی جائے گی۔

اس طرح پی ٹی آئی کو پانچ نشستیں مل جائیں گی اس تجویز کے ماننے سے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کا  راستہ بند ہوجائے گا۔ لیکن اس تجویز پر پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر ہارس ٹریڈنگ کے بغیر فیئر انتخابات ہوتے ہیں تو اس صورت میں انتخابات کے بعد سینٹ میں  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سینٹرز کی تعداد بڑھ کر 51 ہوجائے گی اور اپوزیشن کے سینٹرز کی تعداد کم ہوکر 49 رہ جائے گی لیکن  اگر اپوزیشن اسلام ا ٓباد سے ایک سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر سینٹ میں دونوں کے پاس تعداد ایک جیسی ہوجائے گی۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی سندھ میں  اضافی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے صورتحال تبدیل ہوجائے گی یہی معاملہ  پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں بھی  ہے اگر وہاں  پی ٹی آئی اے کے بندے  توڑ لئے جاتے ہیں تو حکومت کیلئے مشکلات  بڑھ جائیں گی۔

فیئر انتخابات کی صورت میںوفاقی دارالحکومت سے سینٹ کی دونوں نشستیں حکومت کی ہیں جس کیلئے خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نیلوفر بختیار اور ڈاکٹر زرقا تیمور کے نام آرہے ہیں جبکہ دوسری نشست کیلئے  طاقتور شخصیات میدان میں ہیں۔ اپوزیشن  اس کوشش میں ہے کہ اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ لے اُڑے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  کو اسلام آبادسے سینٹ کا انتخاب لڑانے کی باتیں اسی تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ انتخابات کیلئے پنجاب سے بھی نام چل رہا ہے۔

اگلے چندروز میں واضع ہوجائے گا کہ  پیپلزپارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ ٹکٹس کی تقسیم کیلئے پارلیمانی بورڈ تشکیل دیدیا ہے، پیپلز پارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نہ صرف سنجیدگی سے متحرک ہے بلکہ انہیں متفقہ امیدوار نامزد کرانے کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔   سید یوسف رضا گیلانی کو مشترکہ امیدوار بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں اور پیپلز پارٹی اس کے بدلے میں پنجاب میں ن لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ وزیر اعظم پچھلے سینٹ انتخابات میں اپنے ہی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں اس لئے ہارس ٹریڈنگ کے خوف نے کپتان اور اس کی ٹیم کو پرشیان کر رکھا ہے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلد بازی میں آرڈیننس پاس کیا،  بار کونسل نے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ آرڈیننس کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے  ادھر سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت  کے دوران چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اہم ریمارکس سامنے  آئے ہیں جس میں چیف جسٹس آف پاکستان  نے کہا ہے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔

اپوزیشن متفقہ امیدوار لا پائے گی؟
کراچی سے عامرخان
سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے 7سینیٹرز عبدالرحمن ملک ،فاروق ایچ نائیک ،اسلام الدین شیخ ،گیان چند ،سلیم مانڈووی والا ،سسی پلیجو اور شیری رحمن اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہورہے ہیں۔ ایوان بالا کی موجودہ پارٹی پوزیشن کے حساب سے سندھ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں سینیٹ میں اپوزیشن کی طاقت کا اظہار ثابت ہوں گی۔

ان الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زیادہ خوش کن خبریں نہیں ہیں۔ اپنے 4سینیٹرز میاں محمد عتیق ،خوش بخت شجاعت ،محمد علی سیف اور نگہت مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی نمائندگی کے لیے صرف وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ہی رہ جائیںگے۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات ہوںگے ،جن میں 7جنرل ،2ٹیکنو کریٹ اور 2خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔

سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو 168رکنی ایوان میں پیپلزپارٹی کے 97،تحریک انصاف کے 30،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 21،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14،تحریک لبیک پاکستان کے 3اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے۔صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں خالی ہیں جن پر 16فروری کو ضمنی انتخابات ہوںگے۔ ان پر کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 99ہوجائے گی۔ موجودہ صورتحال میں جنرل نشستوںمیں پیپلزپارٹی 4 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ پانچویں نشست کے حصول کے لیے اسے تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔

پیپلزپارٹی نے ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اس حوالے سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 4نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 2نشستیں حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی جبکہ اضافی نشستوں کے لیے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ارکان سے رابطے کرکے انہیں اپنی حمایت کے لیے راضی کرے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو امیدوار بنانے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حوالے سے اس وقت مختلف ناموں پر غور جاری ہے اور ممکنہ امیدوارں میں شیری رحمن ،فاروق ایچ نائیک ،یوسف رضا گیلانی ،اسلام الدین شیخ ،عبدالرحمن ملک ،سلیم مانڈوی والا ،نثار کھوڑو ،جام مہتاب اور ایاز مہر شامل ہیں جبکہ کوئی نیا نام بھی سامنے آسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تاحال سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔سندھ میں اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ہیں جن کے ارکان کی تعداد 65ہے۔اگر ان جماعتوں نے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ تینوں جماعتیں اگر متفق ہوجائیں تو انہیں متفقہ امیدوار لانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور وہ سینیٹ کی 3سے4نشستیں باآسانی حاصل کرسکتی ہیں۔

ن لیگ میں فارورڈ بلاک متحرک
لاہور سے رضوان آصف
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پنجاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر پارٹی کی جانب سے دباو ہے کہ پنجاب میں تنظیمی رہنماوں کو زیادہ تعداد میں سینیٹر بنوایا جائے۔ دوسری جانب ان کی کابینہ میں شامل اہم ترین معاونین اور مشیران بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کی مجموعی تعداد 11 ہے جن میں سے 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ2 نشتوں پر ٹیکنو کریٹس اور 2 پر خواتین کو منتخب کیا جانا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک جنرل نشست کے لئے پنجاب اسمبلی میںاوسطا52 ووٹ درکار ہوں گے۔

تحریک انصاف کے پاس 181 جبکہ مسلم لیگ(ن) کے پاس 165 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور مسلم لیگ(ق) کے پاس 10 نشستیں ہیں، آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کے پاس ایک نشست ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں جو بھی نشستیں جیتنا ہیں وہ پنجاب اسے پنجاب ہی سے لینا ہوں گی۔ اسکے 17 سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ ممکنہ طور پر صرف 5 نئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کے اندر فارورڈ بلاک موجود ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار گزشتہ دو ماہ سے تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف میں بھی’’ہم خیال گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا ہوا ہے ،اس گروپ نے سینیٹ کی نشست اور چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا عہدہ مانگ رکھا ہے لیکن گزشتہ چند روز میں اس گروپ کے بعض ارکان نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں سے انہیں سخت پیغام یا ’’وارننگ‘‘ مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ پہلے ارشد داد کو مضبوط امیدوار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

تحریک انصاف سنٹرل ریجن کے صدر اعجاز چوہدری اور تحریک انصاف جنوبی لاہور کے صدر ملک ظہیر عباس کھوکھر بھی امیدوار ہیں تاہم ملک ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ ملنے کا امکان کم ہے۔ مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود اعجاز چوہدری کا ٹکٹ بھی فی الوقت’’کنفرم‘‘ نہیں۔ لاہور سے تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر خان بھی ٹکٹ کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عبدالعلیم خان بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن علیم خان جیسا مضبوط سیاستدان حلقہ کی سیاست کو نہیں چھوڑے گا۔یہ اطلاعات بھی پھیلائی گئیں کہ جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو بھی ٹکٹ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی غلط اطلاعات ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے ریجنل صدر نور بھابھا بہت مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ اسحاق خاکوانی کو ٹکٹ نہیں مل رہا ہے تاہم نور بھابھا کیلئے یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی گروپ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں نے اپنے امیدوار کے بارے میں کوئی بات ظاہر نہیں کی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور بابر اعوان بھی سینیٹ الیکشن کیلئے کوشاں ہیں جبکہ چند روز سے زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آرہا ہے،معروف آئینی ماہر بیرسٹر علی ظفر کا نام بھی حکومتی حلقوں میں سنائی دے رہا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اور وزیر اعلی کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی متحرک ہیں۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک مالدارسیاسی شخصیت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ٹکٹ کیلئے بہت موثر لابنگ کر رہے ہیں جبکہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈار برادران بھی ٹکٹ کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین کی نشستوں کی بات کی جائے تو ڈاکٹر زرقا سب سے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہی ہیں لیکن ان کا سخت مقابلہ نیلوفر بختیار سے ہے ۔

تحریک انصاف لاہور کی اہم رہنما تنزیلہ عمران بھی دوڑ میں شامل ہیںلیکن پارٹی کیلئے برسوں کی محنت کے باوجود سنٹرل ریجن تنظیم ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب نے نگہت محمود کی حمایت کی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کی ایک نشست ’دی جا رہی ہے چوہدری برادران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نشست پر چوہدری وجاہت حسین اورکامل علی آغامیں سے کون امیدوار ہو گا۔ابتک کی صورتحال میں تحریک انصاف کوپنجاب سے سینیٹ الیکشن میں 4 جنرل(جن میں سے ایک ق لیگ کو ملے گی)ایک سیٹ ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سیٹ ملنے کا قوی امکان ہے جبکہ ن لیگ کو تین جنرل نشتیں اور ٹیکنو کریٹ و خواتین کی ایک ایک نشست ملتی دکھائی دے رہی ہے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی واضح برتری
پشاور سے شاہدحمید
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اکثریت کے اعتبار سے پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد94 ہے جبکہ اگر 19 فروری کو پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی حاصل ہوگئی تو اس صورت میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد بڑھ کر95ہوجائے گی جبکہ ایوان میں ممکنہ طورپر دو آزاد ارکان کی بھی پی ٹی آئی کو حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ق)کے اکلوتے رکن بھی پی ٹی آئی ہی کے ساتھ جائیں گے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپنے امیدوار کے حوالے سے معاملات طے پانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی جائے گی کیونکہ ذیشان خانزادہ کی بطور سینیٹر کامیابی میں بھی بی اے پی نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے ہی میں ڈالا تھا۔

خیبرپختونخواسے اس مرتبہ12نشستوں پر انتخاب ہوگاجن میں 7جنرل نشستوں کے علاوہ خواتین اورٹیکنوکریٹس کی دو،دو جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہے اور عددی اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد41 بنتی ہے جبکہ دو آزاد ارکان بھی اپوزیشن کے ساتھ جاسکتے ہیں جس سے یہ تعداد43ہوجائے گی البتہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کیا حکمت عملی اپنائے گی کیونکہ وہ نہ تو حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے 2015ء میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پی ٹی آئی جبکہ 2018ء میں امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمدخان ،اے این پی کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر ایوان بالا پہنچے تھے اس لیے جماعت اسلامی کو واضح لائن اختیار کرنا پڑے گی۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے کہ سات میں سے دو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرسکتی ہے اور ان دو نشستوں کے لیے جمعیت علماء اسلام اور عوامی

نیشنل پارٹی اپنے امیدوار میدان میں اتار سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کے ارکان کی تعداد باالترتیب 15 اور 12 ہے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشستوں کے لیے مسلم

لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی قسمت آزمائی کرسکتی ہیں جو6 اور5 ارکان رکھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124 سے 145 ہونے کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ انتخابات میں اپناحق رائے دیہی استعمال کریں گے ،ارکان کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تمام نشستوں کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوگیاہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی پہلی مرتبہ سینٹ انتخابات کے لیے اپنے ووٹ استعمال کریں گے۔اس وقت تک نہ تو پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرسکی ہے اور نہ ہی اپوزیشن۔

پاکستان تحریک انصاف،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فرازاوروزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کوٹکٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ سینیٹرز محسن عزیز یا نعمان وزیر میں سے بھی کسی ایک یا دونوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ سینیٹر لیاقت ترکئی بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام(س)کے سربراہ اور مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی کو بھی سینٹ ٹکٹ مل سکتاہے تاکہ پی ٹی آئی اور دارالعلوم حقانیہ میں فاصلوں کو کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جے یو آئی اپنے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو دوبارہ ایوان بالا بھیجنے کی خواہاں ہے۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں میں پارٹی سربراہ اسفند یار ولی خان کو ایوان بالا بھیجنے کی خواہش موجود ہے تاہم ان کی علالت رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شاہی سید سمیت دیگر امیدواروں میں سے کسی کے نام قرعہ نکل سکتا ہے ،بلوچستان عوامی پارٹی شاہ جی گل آفریدی یا سینیٹر تاج آفریدی میں سے کسی ایک کو میدان میں اتار سکتی ہے۔

اگرحکومت کی منشاء کے مطابق سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سسٹم کے تحت ہوئے تو اس صورت میں اس مرتبہ صوبائی اسمبلی میں وہ کھیل نہیں کھیلا جاسکے گا جو سینٹ کے گزشتہ انتخابات میں کھیلے جاتے رہے۔

بلوچستان میں حکمران اتحاد کا پلڑا بھاری
کوئٹہ سے رضاء الرحمن

مارچ2021ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی 12نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں 7جنرل 2خواتین2 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی نشست ہے ،2015ء سے 2021ء کے دوران ملک اور صوبے میں سیاسی اتار چڑھائو اور پھر 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کی سینیٹ میں نمائندگی میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ خصوصاً2018ء میں بلوچستان سے نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور سینیٹ میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر کامیابی نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔

اس ڈرامائی تبدیلی کے اثرات 2015ء کے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کو ملنے والی نمائندگی پر بھی دکھائی دیئے جہاں 2015ء سے 2018ء کے دوران بلوچستان سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سینیٹرز بعد ازں بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اس وقت سینیٹ میں بلوچستان کی نمائندگی کچھ یوں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 10،نیشنل پارٹی4،پشتونخواملی عوامی پارٹی 4، جمعیت علماء اسلام2، مسلم لیگ ن، بی این پی اور آزاد ایک ایک ، جن میں سے مارچ2021ء میں 12سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگی۔

بلوچستان عوامی پارٹی 6، نیشنل پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی 2اور جمعیت علماء اسلام 1، 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65نشستوں میں سے64 پر پارٹی پوزیشن یوں ہے، بلوچستان عوامی پارٹی 24، بلوچستان نیشنل پارٹی 10، جمعیت علماء اسلام10، تحریک انصاف 7،عوامی نیشنل پارٹی 4،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 2، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2، پشتونخواملی عوامی پارٹی، ن لیگ ، جمہوری وطن پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے، جبکہ ایک آزاد رکن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست جے یو آئی(ف) کے رکن سید فضل آغا کے انتقال کے باعث خالی ہے جس پر اسی ماہ کی 18تاریخ کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 12نشستوں میں سے سینیٹ کی 7نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہوجائیگی، جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے باقی 5نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ خان زہری نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ آزاد رکن اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

بلوچستان سے 2021ء کے سینیٹ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملے گی اسی طرح پی ڈی ایم کی دوسری قوم پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حصے میں بھی کوئی نشست نہیں آئے گی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو ایک ایک نشست ملنے کی توقع ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ’جس کے 4سینیٹرز ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ کوشش ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر 4یا اس سے زائد نشستیں حاصل کر لے۔

اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جوکہ سینیٹ میں اس سے قبل صرف ایک نشست رکھتی ہے مارچ 2021ء کے سینیٹ الیکشن میں اپنی عددی پوزیشن میں بہتری لائیگی، اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اچھی حکمت عملی مرتب کی تو وہ 8سے 9نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔