’ ہرڈ امیونٹی ‘ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں موثر حکمت عملی

عبید اللہ عابد  جمعرات 11 فروری 2021
کورونا وبا کے عالمی بحران کے دوران آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ ’’ ہرڈ امیونٹی ‘‘ حاصل ہو جائے تو وائرس سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ فوٹو: فائل

کورونا وبا کے عالمی بحران کے دوران آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ ’’ ہرڈ امیونٹی ‘‘ حاصل ہو جائے تو وائرس سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ فوٹو: فائل

اگرچہ اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں پہلے جیسی نہیں رہیں لیکن بعض ممالک میں یہ وائرس بار بار سر اٹھا رہا ہے اور بعض معاشروں میں اس کی نت نئی شکلیں پیدا ہورہی ہیں۔

ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی کورونا وائرس کے کیسز کافی حد تک کم ہوچکے ہیں ، ان کا گراف مسلسل نیچے کی طرف دیکھا جارہا ہے تاہم بعض ایام ایسے بھی آتے ہیں جب یہ سر اٹھانا شروع کردیتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا بھی کہنا ہے کہ دنیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں تین ہفتوں سے مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبریسس نے کہا ہے کہ اگرچہ کچھ ممالک میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے مرض کووڈ نائٹین کے کیسوں میں کمی ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔تاہم ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اس مہلک وبا سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل جاری رکھنے میں کوئی بھی کمی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران بھی ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس وبا سے متاثر ہونے والے لوگوں میں تقریباً تمام ممالک میں کمی دیکھی گئی۔ اس کمی کی بنا پر حکومتوں نے کاروبار حیات کو کھولنا شروع کر دیا جب کہ افراد نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں نرمی کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وائرس شدت کے ساتھ دوبارہ پھیلنا شروع ہو گیا۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تازہ ترین رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگ سماجی فاصلوں کی پابندی کریں، چہروں پر ماسک لگائیں اور صفائی کا خیال رکھیں تو اس عالمی وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لوگوں کو میسر ہو رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر پر کاربند رہیں تاکہ وائرس کی نئی اقسام کو پھیلنے سے روکا جائے۔ یاد رہے کہ 2019 کے آخر میں پھوٹنے والی وبا سے اب تک قریباً دس کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ وبا 20 لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کر چکی ہے۔

کورونا وبا کے عالمی بحران کے دوران آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ ’’ ہرڈ امیونٹی ‘‘ حاصل ہو جائے تو وائرس سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ عام انسانوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ’’ ہرڈ امیونٹی ‘‘ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور بعض لوگ بالکل نہیں جانتے، حالانکہ اس کا شعور از حد ضروری ہے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ہرڈ امیونٹی ہے کیا ؟ اوریہ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟

ہرڈ امیونٹی بہت سے لوگوں میں کسی مخصوص بیماری کے خلاف پیدا ہونے والے رجحان کو کہتے ہیں۔ جب کورونا وائرس پھوٹا تو دنیا میں کسی بھی فرد کا جسم اس وبا کے خلاف دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وائرس پوری دنیا میں تیزی سے پھیلا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوا کہ اس وبا کی راہ کیسے روکی جائے؟ تب ’ ہرڈ امیونٹی ‘ کی اصطلاح سننے اور پڑھنے کو ملی۔ کہا گیا ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی غالب اکثریت ایسی ہونی چاہئے جن کے جسموں میں اس وبا کے خلاف قوت مدافعت موجود ہو۔

’ہرڈ امیونٹی‘ دو طرح سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اولاً فطری طور پر اپنے اجسام کو وبائوں کے خلاف مضبوط بنایاجائے، جب بھی کوئی وبا پھوٹے ، وہ انسان کے جسم سے ٹکرائے لیکن اس کا کچھ بگاڑ سکے اور ناکام و نامراد واپس پلٹ جائے۔

ثانیاً ویکسینیشن، یہ تیز رفتار طریقہ ہے۔ جب وبا آچکی ہو تو فوری اور تیز رفتار طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کے تناظر میں کہا جارہاہے کہ معاشرے کے کم از کم 80 فیصد لوگوں کو ویکسینیشن لگ جائے تو معاشرے میں ہرڈامیونٹی پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً اس وقت پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے زائد ہے، جب تک ساڑھے سترہکروڑ پاکستانیوںکو ویکسین نہیں لگتی تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان میں ہرڈ امیونٹی پیدا ہوچکی ہے۔ اگرچہ پاکستان جیسے ممالک میں ہر پانچ میں سے چار افراد کو ویکسینیشن دینا ایک بڑا چیلنج ہے تاہم اس کے بغیر ہم اپنے معاشرے میں ہرڈ امیونٹی پیدا ہونے کے بارے میں اطمینان ظاہر نہیں کرسکتے۔

ہرڈ امیونٹی کسی ایک معاشرے میں کرکے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ جس طرح ایک معاشرے میں اسی فیصد لوگوں کو ویکسین لگاکر یہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے، اسی طرح پوری دنیا میںدوتہائی سے زیادہ لوگوں کو ویکسین دے کر ہرڈامیونٹی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر دنیا بھر کے معاشرے ہمہ وقت معرض خطر میں رہیں گے۔ جن ممالک میں ہرڈ امیونٹی نہ ہوئی، وہاں سے کوئی مسافر ہرڈ امیونٹی والے معاشروں میں آگیا تو وائرس پھیلنے کے خطرات ایک بار پھر پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب باقی لوگ بھی محفوظ رہیں گے۔ اس لئے پوری دنیا میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ پوری دنیا میں اس کے خلاف ویکسینیشن کی جائے۔

ہرڈ امیونٹی حاصل ہو جانے کے بعد کیا ہوگا ؟
ہرڈ امیونٹی کے نتیجے میں معاشرے میں بیماری کا گھیرائو تنگ ہوجاتا ہے، اسے پھیلنے کی آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر وہ ادھر ادھر پھیلنا چاہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً اس کے پھیلنے کی شرح کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔ اور پھر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب یہ بیماری مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔

کوئی وقت تھا جب دنیا میں متعدد بیماریاں وبائوں کی صورت میں انسانوںکا جینا حرام کررہی تھیں، مثلاً خسرہ ، کن پھیڑ ،لاکڑا کاکڑا اور پولیو جیسی وبائوں کے خلاف ہرڈ امیونٹی کی حکمت عملی اختیار کرکے ہی کامیابی حاصل کی گئی ۔لاکڑا کاکڑا کو ختم کرنے میں کافی وقت لگا جبکہ پولیو کے خاتمے میں نسبتا ً زیادہ وقت عرصہ لگا۔ دنیا میں دو ، تین ممالک میں اس کے کیسز اب بھی سامنے آجاتے ہیں۔ جہاں تک کورونا وائرس کا معاملہ ہے، اسے قابو پانے میں مہینوں سے برسوں تک کا عرصہ درکار ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے معاشروں میں ہرڈ امیونٹی کو پیدا کرنے کے لئے پوری دنیا کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا کووڈ کی نئی اقسام سے ہرڈ امیونٹی حاصل کرنے کی کوششیں متاثر ہوںگی؟ یقیناً کورونا وائرس نت نئی شکلیں اختیار کررہاہے ، ان دنوں جنوبی افریقی شکل بھ سامنے آچکی ہے، جس کے متاثرین امریکا میں بھی پائے جارہے ہیں جو پہلے ہی اس وبا کی تباہ کاریوں سے تباہ حال ہوچکا ہے۔بعض ویکسینوں کے بارے میں کہا جارہاہے کہ وہ کورونا کی تمام اقسام کے خلاف موثر ثابت ہورہی ہیں۔

مثلاً امریکا میں تیار ہونے والی ’ موڈرنا ‘ کے بارے میں وہاں کے سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کووڈ ویکسین برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے وبائی کورونا وائرس کی نئی اور زیادہ متعدی اقسام کے خلاف بھی کام کرتی ہے۔ تاہم یہ ابھی تک ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی مزید تصدیق کی ضرورت ہے۔

کیا ویکیسن کی تیاری کی رفتار اطمینان بخش ہے؟
اس وقت کورونا کے خلاف ویکسینیشن سب سے زیادہ امریکا میں پیدا ہورہی ہے،اس کے علاوہ انڈیا ، چین ، برطانیہ ، جرمنی، جنوبی کوریا اور روس میں بھی ویکسین تیار ہورہی ہے۔ ایران اور کیوبا بھی مل کر ویکسین تیارکررہے ہیں۔

دونوں ممالک امریکا یا کسی دوسرے ملک پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں سال2021ء کے اختتام تک ویکسین کی 4.7 خوراکیں اور بھارت میں تین بلین خوراکیں تیار کی جائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی جس قدر ضرورت ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس کی پروڈکشن کی رفتار کافی محدود محسوس ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو کہنا پڑا ہے کہ ویکسین کی تقسیم کے دوران امتیازی سلوک نہ برتا جائے، ویکسین کی قوت خرید نہ رکھنے والے غریب ممالک کو محروم نہ رکھا جائے۔ بعض یورپی ممالک نے ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے جس پر اقوام متحدہ نے افسوس کا اظہار اور مذمت کی ہے۔

پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کی چینی ویکسین سائنو فارم لگانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم یہ ویکسین ہر عمر کے لوگوں کو نہیں لگائی جارہی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے اس ویکسین سے متعلق ڈیٹا کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا ہے کہ یہ صرف 18 سے 60 برس کے افراد کے لیے زیادہ موزوں ہے اور اسے فی الحال اس مرحلے پر صرف ان افراد کو لگانے کے لیے لائسنس فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد، حاملہ خواتین اور 18 برس سے کم عمر افراد کے لیے یہ چینی ویکسین موزوں نہیں اور 60 برس سے زیادہ عمر کے افراد کو فروری میں پاکستان آنے والی آکسفورڈ کی آسٹرا زینیکا ویکسین لگائی جائے گی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ہرڈامیونٹی پیدا کرنے میں اگلے دو برسوں میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوجائے گی۔

ہرڈ امیونٹی حاصل کرنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟
اس ضمن میں وہی تدابیر ضروری ہیں جو کورونا سے بچائو کے لئے بتائی جاتی ہیں، مثلاً سب سے پہلی اور سب سے اہم تدبیر یہی ہے کہ آپ کو ماسک پہننا چاہئے، چاہے آپ کی ویکیسن بھی ہو جائے۔ اسی طرح ایک فرد کا دوسرے فرد سے فاصلے پر رہنا بھی ضروری ہے۔ اپنے ہاتھ دھونا بھی لازم ہے۔ ان تینوں تدابیر اختیار کرنے سے بیماری کو کافی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ویکسین کا مرحلہ آتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین اس وقت موثر ثابت ہو گی ، جب مذکورہ بالا تدابیر اختیار کی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔