خراماں خراماں چل رہی ہے تحریک

انیس باقر  جمعـء 12 فروری 2021
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

اگر تحریک کی ابتدا اور منصوبہ بندی کو شامل حال کر لیا جائے تو پی ڈی ایم کے قیام کو تقریباً سال بھر ہونے کو آ رہا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ان پارٹیوں کے اغراض و مقاصد ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے، پھر بھی وہ ایک دوسرے کے قریبی ساتھی بنے ہوئے ہیں۔

حزب مخالف نے آپس میں اختلاف رکھنے کے باوجود موجودہ حکومت کو گرانے پر اتفاق کیا ہے لیکن حکومت گرانے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس میں کاہلی، سست روی اور متبادل طریقہ کار موجود ہے،کیونکہ جس سست روی سے یہ تحریک چل رہی ہے لگتا ہے کہ تحریک کا کوئی پرزہ خراب ہو چکا ہے۔ سات ماہ میں متحدہ محاذ نے جو سفر طے کیا ہے اس میں جوش، ولولہ، تند روی اور عوام کو جگانے کا عنصر بالکل موجود نہیں۔

جب سے جلسوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس میں مہنگائی کم کرنے اور اقتصادی طور پر ملک کو مضبوط کرنے کا کوئی پروگرام پیش نہیں کیا گیا۔ حزب اختلاف سے ہمیں صرف یہ پوچھنا ہے کہ آخر ملک سے مہنگائی بے روزگاری ختم کرنے کے لیے کون سے اقتصادی طریقے اختیار کیے جائیں گے کیونکہ حزب اقتدار کا تو یہ الزام ہے کہ وہ جس مہنگائی کو بھگت رہے ہیں یہ تو گزشتہ حکمرانوں کا کرشمہ ہے۔

دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے مستقبل اور اس کے پائیدار ہونے کے سلسلے میں نہ حزب اختلاف کے پاس کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی حزب اقتدار کے پاس۔ فریقین کا صرف ایک منصوبہ ہے کہ قرض لو اور ملک کو آنے والے بحران سے بے فکر ہو کر ملک کی گاڑی کو کمزور ترین سطح تک جانے دیا جائے اور پھر بعد میں آنے والا یہ کہے کہ ورثے میں ہی قرض اور مالیاتی دباؤکا سامنا ملا ہے۔

اس کسمپرسی کا علاج نہ حزب اختلاف کے پاس ہے نہ حزب اقتدار کے پاس۔ حزب ا ختلاف کمزور سطح پر آنے کے باوجود حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے داؤ پیچ کھیل رہی ہے لیکن داؤ پیچ کھیلنے سے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ جو رفتار داؤ پیچ کھیلنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر ہونی چاہیے اس کا فقدان ہے کیونکہ پی ڈی ایم  اس انتظار میں ہے کہ موسم سرما کی سختیاں کم ہو جائیں تو لوگوں کو باہر لایا جائے لیکن باہر لانے کے لیے کسی  دستاویزی پروگرام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ دستاویزی پروگرام کے بجائے مختلف شہروں میں نیم جان جلسے کر رہی ہے اور وہ وقت کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔

ان کے اصل قائد تو لندن میں موجود ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ وہ اتنے مقبول ہیں اگر آئے تو انقلاب آئے گا جب کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں جو حکومت کو گرا سکے کیونکہ پاکستانی لیڈروں نے جس انداز میں حکومت کی ہے اور عوام کو جس طرح سے مصائب میں مبتلا کیا ہے ان کے لیے عوام اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ورنہ مہنگائی اور بے روزگاری اجتماعی طور پر یکجا ہو چکے ہیں اور عرب ممالک سے بھی لوگوں کی نوکریاں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور روزگار کے نئے مواقع مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں روزگار کا فقدان ہے۔ اسی لیے اکثر نوجوان ملک سے فرار کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا ہنرمند، جوں ہی ان کو موقعہ ملتا ہے بیرون ملک پرواز کر جاتے ہیں۔

حکمران جماعت اور اپوزیشن اپنی ذاتی منفعت کے راستے پر گامزن ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ آنے والے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا کیا پروگرام ہے اور وہ کس طرح ملک کو بد سے بہتر بنائے گا۔ ملکی لیڈران نعرے بازی پر یقین رکھتے ہیں لیکن کسی اقتصادی یا زرعی ترقی کے راستوں کو اپنی منزل بنانے سے گریزاں ہیں۔

پاکستان کی زمین اپنے اندر خوشحالی کے ثمرات رکھتی ہے لیکن کوئی حاکم زرعی ترقیاتی پروگرام کی جانب نگاہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ زرعی ترقیاتی پروگرام کے بجائے ملک میں امپورٹ کی بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں ترقیاتی کام اور علمی فروغ کی گنجائش بے انتہا موجود ہے لیکن مویشیوں کی منڈی اور چمڑے کا کاروبار دنیا بھر میں مقبول ہے۔

سو ہمارے یہاں مویشیوں کی پرورش کرکے اس فیلڈ میں ترقی کی راہ نکالی جاسکتی ہے لیکن حکمراں یا ان کے مدمقابل آنے والی قوتیں ملک میں ترقی کے نت نئے راستوں کا کھوج لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ملک میں اس معاشی بدحالی کے باوجود حکمران اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں خواہ ملک کی صورتحال بد سے بدتر کیوں نہ ہو۔ ملک پر جس قدر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے حکمران اتنے ہی خوش ہو رہے ہیں کہ انھیں مزید قرضے ملتے جا رہے ہیں اور پی ڈی ایم ان حالات میں بھی حکمران بننا چاہتی ہے۔ بھلا وہ کیسے عوام کو خوشیاں اور خوشحالی دے سکتی ہے۔

ایسی صورت میں صرف یہی ممکن ہے جو بھی رہی سہی ملک کی اقتصادی صورتحال ہے اس کو کم کرنے میں کوئی دقیقہ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہی ہوگا البتہ موجودہ حکومت کے بارے میں عوام کی رائے یہی ہے کہ اس میں کرپشن کم ہے لیکن اقتصادی امور پر نمایاں کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ اس لیے ملک میں اقتصادی صورتحال بہتر کرنے کی کوششیں نمایاں نہیں ہیں جب کہ دوسری جانب پی ڈی ایم کے جو لیڈر حضرات ہیں انھوں نے ماضی میں حکمرانی کی ہے اور ملک کی صورتحال کو اس درجہ کمزور کردیا ہے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرضوں کا بوجھ کب اور کون اتارے گا۔ جس کے نتیجے میں کرنسی مزید ڈی ویلیو ہونے کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔

کرنسی کو استحکام دینے کے لیے ملک کو ترقی کے انداز میں چلانا ہوگا۔ چین نے گزشتہ دس برسوں میں زبردست اقتصادی ترقی کی ہے اور اب وہ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایک توانا جنگی مشینری کی حامل سلطنت کا درجہ حاصل کر رہا ہے،جب کہ پاکستان میں جو معدنی وسائل موجود ہیں ترکی میں اتنے وسائل موجود نہیں ۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ضلع چاغی میں سونے کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ اب معاملات دوسرا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ پاکستان میں مستحکم جمہوری حکومت قدم جمالے اور ایک دوسرے پر سیاسی داؤ مارنے کا خاتمہ ہو جائے۔

پاکستان میں جمہوری حکومتوں میں ایک دوسرے کی حکومت پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی لیڈروں کو اپنے ملک کی سرزمین سے وہ لگاؤ نہیں جس کا یہ ملک مستحق ہے۔ لہٰذا پاکستان میں جو لوگ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں، ان میں انقلاب کی روش موجود نہیں، وہ محض اقتدار پر قابض  ہونا چاہتے ہیں، اگر انقلاب کی روش موجود ہوتی تو پی ڈی ایم کے پاس کوئی لائحہ عمل ہوتا اور اس کا ایجنڈا واضح اور عوام دوست بن کر سامنے آتا۔ جب کہ پی ڈی ایم نے اپنے مقاصد حکومت میں عوام دوستی کا کوئی منشور اب تک پیش نہیں کیا اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ سست روی کی یہ سیاست کب تک چلتی رہے گی۔ اس بنیاد پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ سیاست میں سرعت نہیں ہے بلکہ خراماں خراماں چلے جا رہی ہے اور عوام بھی اسی لیے پریشان ہیں کہ یہ تحریک کہاں سے شروع ہے اور کہاں پہ ختم ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔