عالمی حدت کی آنے والی تباہ کاریاں

محمود عالم خالد  جمعـء 12 فروری 2021

دنیا بھرکے سائنس دان ، ماحولیاتی ماہرین ، دنیا کے معتبر ترین اداروں کی جانب سے کی جانے والی سینکڑوں تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں جس کا وہ خود حصہ بھی ہیں بتا چکے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کے ضمن میں کی جانے والی پیش گوئیوں سے کرہ ارض کو دوگنا زیادہ آفات و سانحات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جس کی بنیادی وجہ زہریلی گیسوں کا اخراج ہے، ان زہریلی گیسوں (جنھیں گرین ہاؤ س گیسز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ) کے فضا میں بے پناہ اخراج کے سبب عالمی زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی پالیسی سازوں نے 2015 میں کیے جانے والے پیرس معاہدے میںکرہ ارض کے زمینی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے نہ بڑھنے دینے کا جو عزم کیا تھا اس صورتحال میں اب اس پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

سائنسی جریدے نیچر آف سائنس میںشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3.52 ملین سالوں میںعالمی زمینی درجہ حرارت میں0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا تھا جبکہ 19 ویں صدی میں صنعتی ترقی کے پچھلے 100 سالوں میںعالمی درجہ حرارت میںایک ڈگری کا اضافہ ہوا اور دنیا کے کچھ حصوں میں 4 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے اضافے کا بھی مشاہد ہ کیا گیا ۔ رواں صدی کے اختتام تک کرہ ارض کے درجہ حرارت میں 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ متوقع ہے۔

کو وڈ۔19کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤ ن کی وجہ سے جب صنعتی پہیہ رک گیا تھا، فضائی سفر نہ ہونے کے برابر تھا اور وہ تمام ذرائع جو گرین ہاؤ س گیسوں کا موجب گردانے جاتے ہیںبند تھے کہ باوجود بھی صورتحال میںکسی قسم کی بہتری نظر نہیں آئی ۔ اقوام متحدہ کے مطابق کو وڈ۔19 میںگرین ہاؤ س گیسوں کے اخراج میںہونے والی کمی کی شرح صرف 17 فیصد رہی۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ کمی کسی شمار میںہی نہیں کیونکہ فضا ان زہریلی گیسوں سے بھر چکی ہے یہی سبب ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ آفات کا سلسلہ کو وڈ۔19 میںہونے والے لاک ڈاؤ ن کے باوجود بھی نہیںرک سکا۔

کرہ ارض پر درجہ حرارت کاریکارڈ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے دسمبر 2019 میںپیش گوئی کی تھی کہ 2020 کرہ ارض کے گرم ترین برسوں میںسے ایک ہوگا۔ اسی ادارے کی 2020 کے اختتام پر جاری ہونے والی رپورٹ جو سینکڑوں ماہرین اور اداروں کی تحقیق اور مشاہدات کی روشنی میںمرتب کی جاتی ہے میں بتایا گیا ہے کہ درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھنے کی 178 سالہ تاریخ میں 2016 کے بعد معمولی فرق کے ساتھ 2020 دوسرا گرم ترین سال رہا۔

اعداد و شمار کے مطابق یہ اضافہ 1900 سے 1985 تک ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم نے 5 میںسے 1 فیصد کے تناسب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ 2024 تک درجہ حرارت میںمزید ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 100 سالوں میں 0.8 ڈگری سینٹی گریڈسے زائد کا اضافہ ہوا تاہم موجودہ حالات کے تناظر میںصورتحال کی سنگینی کا اندازہ ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ صرف پچھلے 3 عشروں میںدیکھنے میںآیا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے سربراہ پیڑی تلاس نے کہا کہ ہم نے رواں سال گرمی کے غیر معمولی واقعات دیکھے ہیں۔

اس ضمن میںبین الاقوامی فیڈریشن آف ریڈ کراس کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ ’’حدت اور سطح سمندر میں اضافہ‘‘ میںبتایا گیا کہ کووڈ۔19کے پہلے 6 ماہ میںدنیا کو 100 سے زائد موسمیاتی تبدیلی سے جڑی آفات کا سامنا کرنا پڑا جس میں 5 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔رپورٹ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں کے لیے کووڈ کے مقابلے میںکہیں زیادہ چیلنج کی حامل ہیں۔

بے شمار تحقیقی رپورٹیں ، دنیاکے چوٹی کے سائنس دان و ماحولیاتی ماہرین مسلسل عالمی پالیسی سازوں کو متنبہ کرتے چلے آرہے ہیںکہ اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو گرمی کی شدت میں اضافہ ، سمندری طوفان ، سیلاب ، آگ لگنے کے واقعات کے ساتھ دیگر قدرتی آفات میںمزید تیزی آئے گی اور ہو بھی یہی رہا ہے۔ خصوصا گنجان آبادی رکھنے والا ایشیائی خطہ جہاں موسمیاتی تبدیلیو ں سے جڑے تمام مظاہر تباہی مچا رہے ہیں۔

سسٹین ایبل انرجی فار آل کی جاری کردہ رپورٹ 2018 میں کہا گیا کہ عالمی زمینی درجہ حرارت میںہونے والے اضافے کے نتیجے میںدنیاکے 1.1 ارب سے زائد لوگ شدید متاثر ہوں گے جن کا تعلق صرف براعظم ایشیا کے ملکوں سے ہے جبکہ لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے 430 ملین اورکچی بستیوں کے 630 ملین افراد گرمیوں کی شدت کا سامنا کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں52 ملکوں میںسروے کیا گیا جس میںپاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2030 سے 2050 کے درمیان گرمی کی شدت کے نتیجے میںمعمول سے 38 ہزار زائد ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیاگیا ۔

2017 میں معروف جریدے ’’ سائنس ایڈوائسز‘‘ میںشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2100 تک جنوبی ایشیائی ملکوں کے کئی حصے گرمی کی شدت کے نتیجے میںانسانی آبادیوں سے محروم ہوجائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کے وہ علاقے جہاں سخت گرمی اور حبس کے باوجود لوگ سایہ دار درختوں کے نیچے زندگی بسرکرلیتے ہیں، وہاں کا درجہ حرارت جب 5 یا 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا تو ان علاقوں کے رہنے والے درختوں کے سائے میںبھی زندگی نہیںگزارسکیں گے۔ تحقیق کاروں کے مطابق اگلی دو ، تین دہائیوں میںپاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہولناک گرم لو کے جھکڑچلنا شروع ہو جائیں گے جس کے سبب جنوبی ایشیا ئی خطے کی 30 فیصد آبادی کھولتے پانی جیسے درجہ حرار ت کا سامنا کرے گی۔

بین الاقوامی تھنک ٹینک جرمن واچ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میںہونے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک ہورہے ہیں۔ رپورٹ کے شریک مصنف ڈیوڈ کہتے ہیں کہ غریب ممالک کو خوفناک صورتحال کا سامنا ہے۔

انھیں بار بار موسموں کی شدت کے انتہائی واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ایک اور شریک مصنفہ ویر ا کہتی ہیں کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے انھیں تباہ کن آفات کا سامنا بھی زیادہ کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ان میں ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت پہلے ہی بہت کم ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کی مثال لی جائے تو اسے ایسی کسی آفت کے اثرات سے نکلنے کی مہلت ہی نہیں ملتی، وہ ایک آفت سے نکلتے ہیں تو دوسری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

صورتحال تیزی سے بگڑتی جارہی ہے لیکن ہم من حیث القوم آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ ابھی تک ہمارے بنیادی ایجنڈے کا حصہ بن ہی نہیں سکاہے۔ ہم سانحہ گزرنے کے بعد دوسرے سانحے کی تلاش میںنکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ بھی شاید کسی ایسے سانحے کے انتظار میں ہے جس کا شکار وہ خود ہوں ۔ وقت تیزی سے نکل رہا ہے عالمی رپورٹیں ہمیںمستقبل کی تصویر دکھا رہی ہیں لیکن ہم من حیث القوم ’’میں نہ مانوں‘‘ کی کیفیت کا شکار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔