برطانوی طالب علموں میں تشدد کا بڑھتا رجحان

ندیم سبحان  اتوار 5 جنوری 2014
ہر روز دس طلبا اسکولوں سے نکالے جاتے ہیں.  فوٹو: فائل

ہر روز دس طلبا اسکولوں سے نکالے جاتے ہیں. فوٹو: فائل

برطانوی تعلیمی نظام کا شمار دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں ہوتا ہے، اور اسی مناسبت سے برطانوی درس گاہوں سے تعلیم پانے والے طلبا کو بھی ذہین اور مہذب سمجھا جاتا ہے، مگر حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک سروے رپورٹ تصویر کا دوسرا رخ پیش کررہی ہے۔

برطانیہ میں ہر روز دس طالب علم لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہونے کے باعث اسکولوں سے خارج کردیے جاتے ہیں۔ لڑائی جھگڑوں کے ان واقعات میں چاقو چھری سے لے کر بندوق تک، مختلف ہتھیار بھی استعمال  ہوتے ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس طلبا اور اساتذہ پر مرچوں کے اسپرے اور بلیڈز سے حملہ کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ ایسیکس کاؤنٹی کے ایک اسکول میں ایک طالب علم نے چاقو دوسرے طالب علم کی شہ رگ پر رکھ دیا تھا۔ ایک اور طالب علم کو آگ بجھانے والا سلنڈر ہیڈماسٹر کو پھینک مارنے کی پاداش میں اسکول سے نکال دیا گیا۔ لیشسٹر کے اسکول میں ایک بچے نے اسکول بس میں سے ہتھوڑی چرا کر اپنے ساتھیوں کو ڈرایا دھمکایا۔

برمنگھم میں اسکول کے اندر خنجر، چاقو اور مرچوں کا اسپرے لانے پر طلبا کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایک طالب علم نے استاد کو رسی سے پیٹنا شروع کردیا جس کا نتیجہ اسے اسکول سے اخراج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ایک اور طالب علم نے اپنے ساتھی پر آہنی مکّے سے حملہ کیا۔ ویسٹ سسیکس میں ایک طالب علم کو اپنے دو ساتھیوں پر چھینی سے حملہ کرنے کی پاداش میں معطل کردیا گیا۔ جنوبی لندن کے علاقے کریوڈن میں ایک طالب علم نے دوسرے کو ایئرگن شاٹ سے زخمی کردیا۔

برطانوی کونسلوں کا یہ سروے معلومات تک رسائی کی آزادی کے قانون کے تحت دی گئی ایک درخواست کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کُل  150 کونسلوں میں سے 57 کو مقامی اسکولوں سے طالب علموں کو عارضی یا مستقل طور پر خارج کردینے کی رپورٹیں موصول ہوئی تھیں۔ طلبا کے اخراج کا سبب ان کا تشدد کے واقعات میں ملوث ہونا تھا۔ سروے کے مطابق گذشتہ برس اس نوع کے 594 واقعات رونما ہوئے۔ تاہم یہ صرف ایک تہائی کونسلوں کے اعدادوشمار تھے۔ بقیہ دو تہائی کونسلوں میں ہونے والے واقعات کی تعداد بھی اتنی ہی مان لی جائے تو گذشتہ برس 1800 کے لگ بھگ  یعنی 10 طالب علم روزانہ طلبا اسکولوں سے نکالے گئے۔

’’ کیمپین فار ریئل ایجوکیشن‘‘ کے چیئرمین اور تاریخ کے سابق استاد کرس میک گورن کہتے ہیں،’’ طلبا اور اسٹاف کے لیے اسکول محفوظ  ہونے چاہییں۔ جو طالب علم دوسروں کے لیے خطرہ ثابت ہو اس کی تعلیم کا انتظام اس وقت تک کسی علیحدہ جگہ پر ہونا چاہیے جب تک کہ ہمیں یقین نہ ہوجائے کہ اب وہ اپنے ساتھیوں کے لیے خطرہ نہیں رہا۔‘‘ برطانیہ میں گذشتہ تعلیمی سال کے دوران اسکولوں میں تشدد کے سب سے زیادہ 112 واقعات لندن میں پیش آئے۔

برطانوی طلبا میں تشدد کا رجحان صرف ہائی اسکولوں کے طلبا تک محدود نہیں بلکہ پرائمری اسکولوں کے طالب علم بھی پُرتشدد واقعات میں ملوث ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق گذشتہ تعلیمی سال کے دوران اسکول کے عملے پر حملے کرنے کی پاداش میں پرائمری اسکولوں سے 8000 طلبا کو نکالاگیا۔ یعنی اوسطاً  40 نام روزانہ خارج کیے گئے۔ اس طرح ہائی اسکولوں کے مقابلے میں پرائمری اسکولوں کے طلبا زیادہ پُرتشدد رجحان کے حامل پائے گئے۔ برطانوی  محکمہ تعلیم کے ترجمان کا کہنا ہے،’’ یہ قطعی ناقابل قبول ہے کہ طالب علم ہتھیاروں سے دیگر طلبا اور اساتذہ کو ڈرائیں دھمکائیں اور ان پر تشدد کریں۔‘‘

طلبا میں مسلح تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے اساتذہ کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وہ اب بنا کسی نوٹس کے طلبا کو نظربند کرسکتے ہیں، ہتھیار کی موجودگی کے شبہے میں زبردستی ان کی تلاشی لے سکتے ہیں، اور کمرۂ جماعت میں گڑبڑ پھیلانے والے طالب علم کو جبراً باہر نکال سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔