نظریہ متوازن معیشت اورکرنسی  (دوسرا اور آخری حصہ)

خالد گورایا  اتوار 14 فروری 2021
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

1972-73 میں ایکسپورٹ پندرہ کروڑ تیس لاکھ روپے تھی ، اس کے بعد ہر حکومت نے امریکی مالیاتی غلامی کی تابعداری کرتے ہوئے کمیشن کھا کر ملکی معیشت کو تباہ کیا۔ پاکستان میں آج تک جو پارٹیاں دعوے، وعدے کرتی ہیں سب کچھ اس کے برعکس کرتی ہیں۔

عمران خان نے 17  اگست 2018 کو وزیر اعظم کی حیثیت سے حکومت حاصل کر لی۔ اس نے اس کے لیڈروں نے عوام سے جو وعدے کیے وہ سب غلط ہوئے۔24 جنوری 2021 تک پی ٹی آئی کی حکومت کو بنے ہوئے 2  سال 5  ماہ اور 8  دن تک مہنگائی میں دو گنا یعنی 100  فیصد سے بھی زیادہ اور کئی اشیا میں 150  فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان آج الزامستان بنا ہوا ہے۔

مندرجہ ذیل میں جو اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں اسٹیٹ بینک کی ہر ماہ شایع کردہ کتاب Monthly Statistical Bulletin. July 2018 December 2018, April 2019, November 2020 and December 2020 سے لیے گئے ہیں۔

اگست 2018 کو ڈالر کی اوسط قیمت105.3079روپے تھی اور مالی سال اگست 2020 ڈالر کی قیمت167.7064ہو چکی تھی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ 59 فیصد ہو چکا تھا اور فی ڈالر پر نفع روپے62.398روپے ہو گیا تھا اس طرح ایکسپورٹرز نے کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی منڈی مقابلے میں پاکستانی اشیا کم ڈالر ریٹ پر فروخت زیادہ ایکسپورٹ کرکے زیادہ ڈالر حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں کرنسی ایکسچینج پر فی ڈالر نفع پاکستانی روپے میں62.398روپے حاصل کرلیا۔ جو باہر سے نفع تو معمولی لیا لیکن اپنے ملک زیادہ نفع کمالیا۔

ایک تو اس سے ملکی صنعتی کلچر اور زرعی کلچر پر منفی اثر پڑا۔ تجارت کو مصنوعی طریقے سے بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا، لیکن چند ایکسپورٹ نے نفع تو کما لیا لیکن ملکی پوری معیشت کو ڈالر کے مقابلے میں پیچھے دھکیل دیا۔ یہ نوسر بازی ملکی تمام بجٹوں اور اسٹیٹ بینک کی شایع کردہ کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن صرف اعداد و شمار کی حد تک۔

مہنگائی بڑھنے کی وجہ (1) حکومت جب انتظامی غیر پیداواری اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس بڑھاتی ہے تو اس کا اثر عوام کی قوت خرید پر براہ راست پڑتا۔

(2) کرنسی ڈی ویلیو ایشن کے نتیجے میں جب امپورٹرز باہر سے اشیا منگواتے ہیں تو اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے مہنگے ڈالر خریدنے پڑتے ہیں۔اس طرح پٹرولیم مصنوعات، کیمیکل جو ادویات و دیگر اشیا میں استعمال ہوتے ہیں ودیگر اجناس وغیرہ یہ تمام اشیا عوام کے لیے مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ایکسپورٹرز اور امپورٹرزکوکبھی نقصان نہیں ہوتا وہ اپنا فائدہ نفع کی شکل میں ہر حالت میں وصول کرتے ہیں۔

(3) ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈالرکے مقابلے میں ملکی وسائل نہایت سستے خریدتی ہیں اور اپنی پروڈکشن پر اپنے نفع کے علاوہ ڈالر نفع بھی حاصل کرتی ہیں۔ زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے تحفظ کے لیے ملکی سرمایہ کاروں کوکمپنی میں حصہ دیتی ہیں۔ ایک طرح سے عوام آج ملکی اداروں کے اخراجات اور امریکی ڈالر ٹیکس ادا کررہی ہیں۔

جوں جوں ڈالر مہنگا ہوتا جائے گا توں توں ملکی ادارے خسارے میں جائیں گے جس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں کے غیر ملکی ڈالر قرضوں کا بوجھ عوامی قوت خرید پر ڈالا جاتا ہے اور امریکی ادارہ حاکم بن کر حکمرانوں کو حکم دے رہا ہے کہ فلاں فلاں شے پر ٹیکس بڑھاؤ فلاں فلاں ادارے کی نجکاری کردو۔ عمران خان اور اس کی ٹیم نے بڑی تیزی کے ساتھ سامراج کا ساتھ دیا ہے۔

مالی سال 2019 میں مرکزی ملازمین کی سالانہ اضافہ کیا جاتا ہے، اسے بند کردیا۔ حکومت نوسر بازی کرکے ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ اور تباہ کر رہی ہے۔ جو دفاع اور عوام کو تیزی سے تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے حکمران سامراج کے غلام ابن غلام ہمیشہ ہم پر مسلط رہے ہیں اب تک ان حکمرانوں جو (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ان کے اتحادیوں نے سامراجی غلامی کرکے ملک و عوام کو تباہی کی طرف دھکیلا ہے۔

تمام پارٹیوں میں سامراج سے معاشی آزادی کا عملاً کوئی پلان و عمل نظر نہیں آتا ہے۔ سامراج کے بڑھتے قرض جون 2018 میں 95 ارب 34 کروڑ 16 لاکھ ڈالر تھے جن کی ملکی روپے میں مالیت 115 کھرب 87 ارب 90 کروڑ روپے تھی۔ ستمبر 2020 تک غیر ملکی ڈالر قرضہ1 کھرب 13 ارب 80 کروڑ 34 لاکھ ڈالر ہو چکے تھے۔ عمران خان کی حکومت نے ستمبر 2020 تک 18 ارب 46 کروڑ 18 لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا تھا اور پاکستانی روپے میں یہ قرض ادائیگی کا بوجھ عوام پر 188 کھرب 67 ارب روپے ہو چکا تھا۔

حکومت غیر ملکی قرض ادائیگی کا بوجھ عوام پر مسلسل بڑھا رہی ہے۔ عمران خان اور اس کی ٹیم عوام کو بتائے کہ آج ملکی معیشت کی تباہی جو معیشت تباہ حال کی شکل میں موجود ہے۔ اس کے بدلے ان کے بیرونی ملکوں کے اکاؤنٹ میں سامراج نے کتنا کمیشن ڈالا ہے؟ اور کشکول توڑنے کے دعوے کہاں گے۔

مالی سال 2018 میں Workers Remittances ملک میں 19 ارب 91 کروڑ 36 لاکھ ڈالر آیا۔ اور مالی سال میں 2019 میں یہ بڑھ کر 21 ارب 73 کروڑ 94 لاکھ ڈالر ہوگئے۔ تو عمران خان یہ بیان سامنے آیا کہ ملکی ترقی کا یہ ثبوت ہے کہ ورکرز کا زرمبادلہ 2 ارب ڈالر زیادہ آیا ہے اور مالی سال 2020 تخمینہ 23 ارب 13 کروڑ 23 لاکھ ڈالر ہوگئے۔

اس طرح مصنوعی ایکسپورٹ بڑھنے کو ترقی کرنے سے جوڑا گیا کیونکہ یہ کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا نتیجہ تھا۔ کیا کیجیے ان تمام سیاسی جاہلوں کا جو عوام کو اندھا اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ 1951 اکتوبر کے بعد سے لے کر آج تک سیاسی نوسرباز حکمران چلے آ رہے ہیں۔ ہم پر اللہ رحم کرے۔( آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔