قانون سازی کے باوجود خواجہ سرا حکومتی امداد سےمحروم

آصف محمود  پير 15 فروری 2021
کورونا کے دوران 49 فیصد خواجہ سراؤں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سروے فوٹو: ظہور احمد

کورونا کے دوران 49 فیصد خواجہ سراؤں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سروے فوٹو: ظہور احمد

 لاہور: غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق 97 فیصد خواجہ سراؤں کا کہنا ہے انہیں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران احساس پروگرام کے تحت امداد نہیں ملی جب کہ 57 فیصد خواجہ سراؤں نے سرکاری طبی سہولتوں پرعدم اطمینان کیا ہے۔

کوویڈ 19 کے دوران خواجہ سراؤں کو بھی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، کئی خواجہ سراؤں نے ناچ گانے اور بھیک مانگنے جیسے دھندوں کو چھوڑ کر سلائی کڑھائی سمیت مختلف ہنر سیکھنا شروع کردیئے، خواجہ سراؤں میں مذہبی تعلیم کے حصول کا رحجان بھی بڑھنے لگا ہے۔ خواجہ سراؤں کا سب سے بڑا مسلہ ان کی قبولیت کا ہے، کوریڈ 19 کے دوران 170 سے زائد خواجہ سراؤں کوجنسی اورجسمانی تشددکانشانہ بنایا گیا اورہراساں کیا گیا،

لاہور کی سماجی کارکن انوشہ طاہر بٹ نے اپنے گھر کے اندر ہی خواجہ سراؤں کو سلائی کڑھائی سکھانے اور قرآن پاک کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ انوشہ طاہر بٹ نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا انہیں بچپن سے ہی خواجہ سراؤں کے لئے کچھ کرنے کا شوق تھا، اب ان کے خواب پورے ہورہے ہیں۔ اب تک 10 سے 15 خواجہ سرا سلائی کڑھائی سیکھ چکے ہیں اور مزید سیکھ رہے ہیں ،اس کے علاوہ انہیں ڈیکوریشن پیس تیار کرنے کا ہنر بھی سکھایا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کررہی ہیں۔

سلائی کڑھائی کا ہنر سیکھنے والی خواجہ سرا بالی جٹی نے بتایا کوویڈ 19 کے دوران ان کا کام ٹھپ ہوکر رہ گیا، وہ لوگ مختلف تقریبات میں جاکرناچتے گاتے تھے، پنجاب کے مختلف دیہات میں جومیلے لگتے ہیں وہاں جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی گھر بیٹا پیدا ہوتا ہے یا شادی کی تقریب ہوتی ہے تو وہ ودھائی (نزرانہ) لینے جاتے ہیں لیکن یہ کام بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ میلوں پرتھیٹرلگانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔

خواجہ سراؤں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی قبولیت ہے، معاشرہ تو دور کی بات خود خواجہ سراؤں کو ان کے خاندان بھی قبول نہیں کرتے۔ خواجہ سراؤں کی مقامی گرو شمع جان کہتی ہیں ان کا تعلق ملتان سے ہے لیکن ان کے والدین اس کے کام کوپسند نہیں کرتے اس لئے انہوں نے اسے گھرسے نکال دیا اور تعلق ختم کردیا اب وہ لاہور میں اپنی شاگردوں کے ساتھ ہی رہتی ہیں کیونکہ وہ ان کے بغیرنہیں رہ سکتیں، خواجہ سراؤں کو ناچ گانا اوربھیک مانگنا اچھا نہیں لگتا ۔اس لئے اب ان کی کمیونٹی کے لوگ مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ گھر بیٹھ کر روزگار کما سکیں اورلوگ ان سے نفرت کرنے کی بجائے عزت سے پیش آئیں۔

سماجی کارکن انوشہ طاہر بٹ کہتی ہیں کہ حکومت نے خواجہ سراؤں کو الگ جنس توتسلیم کرلیا ہے اوران کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی ہے لیکن مسئلہ ان کی قبولیت کا ہے ۔ جو خواجہ سرا پڑھے لکھے ہیں ان کی تعلیمی اسناد پر ان کی جنس لڑکی یا لڑکا لکھی ہے ۔ اب شناختی کارڈ پر اگر خواجہ سرا لکھ دیا جائے تو تعلیمی اسناد ضائع ہوجائیں گی، اگر تعلیمی اسناد کے مطابق شناختی کارڈ بنتا ہے تو وہ خواجہ سرا شمار نہیں ہوں گے۔ حکومت نے قانون تو بنادیا لیکن اس پرعمل درآمد کیسے ہونا ہے ابھی تک یہ چیزیں طے نہیں ہوسکی ہیں۔

گُڈ تھنکرز آرگنائزیشن پاکستان کے صدر وقاص عابد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کوویڈ 19 کے دوران انہوں نےان کے تنظیم نے لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں 353 خواجہ سراؤں کا انٹرویوز کئے ہیں ۔ اس دوران یہ حقائق سامنے ہیں ۔97 فیصد خواجہ سراؤں کا کہنا ہے انہیں احساس پروگرام کے تحت امداد نہیں ملی ہے، 57 فیصد خواجہ سراؤں نے حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں پرعدم اطمینان کیا۔ 26 فیصد خواجہ سراؤں کو کورونا کے دوران تفریحی مقامات، پارکوں اورسینما گھروں میں غیرمناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا، 26 فیصد کو مساجد اورمذہبی مقامات پر حقارت آمیز رویے کی شکایت رہی،52 خواجہ سرا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرنہیں کرتے، 16 فیصد کو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

سروے کے مطابق کورونا کے دوران 49 فیصد خواجہ سراؤں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 51 فیصد کا کہنا تھا اس عرصہ میں انہوں نے اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں اورانہیں ہراساں نہیں کیا گیا ہے۔ کوویڈ 19 کے دوران صرف 29 فیصد خواجہ سراؤں کو مختلف این جی اوز اور مخیر حضرات کی طرف سے نقدی اوراجناس کی صورت میں امداد دی گئی۔ 26 فیصد کا کہنا ہے ان کے علاقے میں کوئی امدادنہیں دی گئی جبکہ45 فیصد کا کہنا ہے ان کے علاقے میں امداد تودی گئی لیکن خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے انہیں وہ امداد نہیں مل سکی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔