سینیٹ انتخابات: پیسوں کی جنگ اور اپنوں پر نوازشات

احتشام بشیر  بدھ 17 فروری 2021
سینیٹ الیکشن کے قانون کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

سینیٹ الیکشن کے قانون کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایوان بالا سینیٹ انتخابات کےلیے طبل جنگ بج گیا ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار لیے ہیں اور کاغذات نامزدگی کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد اب سیاسی جماعتوں کی جانب سے لابنگ کا سلسلہ شروع ہوگا۔

اس بار تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کھڑی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اگرچہ سینیٹ الیکشن میں ایک دوسرے کے ساتھ کا اعلان کیا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا کہ حکومتی امیدواروں کا مقابلہ کرنے کےلیے کس جماعت کے امیدوار کا ساتھ دیا جائے گا۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں پی ڈی ایم کا ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا اور آئندہ دو سے تین روز میں دوبارہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں 2018 کے سینیٹ الیکشن کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد حکومت بھی دفاعی پوزیشن میں نظر آرہی ہے اور حکومتی پارٹی کے ارکان کے رویے سے ایسا لگ رہا ہے وہ ابھی بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ شو آف بیلٹ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کا انتخاب کرایا جاسکے۔ لیکن الیکشن کمیشن اس عمل کی مخالفت کررہی ہے، تاہم عدالت کے فیصلے کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی۔

سینیٹ الیکشن میں موجودہ صورتحال ماضی کی صورتحال سے مختلف نہیں۔ ٹکٹ کی تقسیم میں رشتے داروں، دوستوں اور سرمایہ داروں کو نوازا جارہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بظاہر حکومت مستحکم نظر آرہی ہے لیکن حکومت کا مقابلہ کرنے کےلیے اپوزیشن جماعتوں نے برتری نہ ہونے کے باوجود اپنے امیدوار میدان میں اتار لیے ہیں۔

سینیٹ الیکشن اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ جس امیدوار کے پاس مطلوبہ ووٹوں کی تعداد پوری ہوئی، وہی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی میں 145 ارکان کے فارمولے کے تحت جنرل نشست پر امیدوار کو کامیابی کےلیے 18 ووٹ لینا لازم ہے۔ اسی طرح ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی نشست پر کامیابی کےلیے 48 اور اقلیتی نشست کےلیے 78 ووٹ لینا لازمی ہے۔

ایوان میں اس وقت حکمران جماعت پی ٹی آئی کے 94، جے یو آئی کے 15، اے این پی کے 12، ن لیگ کے 6، پیپلزپارٹی کے 6، جماعت اسلامی کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، آزاد تین اور ق لیگ کا ایک امیدوار ہے۔ پی ٹی آئی نے دس، جے یو آئی نے پانچ، اے این پی نے چار، ن لیگ نے تین، پیپلزپارٹی نے دو اور جماعت اسلامی نے چار امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ اپوزیشن میں اس وقت زیادہ تعداد جے یو آئی کی ہے۔ اگر پی ڈی ایم مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو جنرل نشستیں اپوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اب حکومت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ پہلے دوسری اور تیسری ترجیح کن امیدواروں کو دیتی ہے۔ امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونے تک ابھی نمبروں کا فارمولہ ہونا ہے۔

تحریک انصاف کے امیدواروں پر نظر ڈالی جائے تو پی ٹی آئی نے بھی اپنوں کو نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز اور ذیشان خانزادہ کو دوسری بار ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، ساتھ ہی سرمایہ دار محسن عزیز، فیصل سلیم پر خصوصی نوازش کی گئی ہے۔ عمران خان کے قریبی دوستوں دوست محمد محسود اور ڈاکٹر ہمایوں کو بھی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ خواتین میں وزیراعظم کی مشیر ثانیہ نشتر اور فلک ناز چترالی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ورکرز کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں جن امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، پی ٹی آئی کی تحریک میں یہ کہاں تھے؟

اپوزیشن جماعتوں کی بھی صورتحال مختلف نہیں۔ پیپلزپارٹی چھ نشستوں پر دو امیدوار سامنے لے آئی ہے۔ فرحت اللہ بابر کو جنرل اور ٹیکنوکریٹ کےلیے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ جنرل نشست پر 18 اور ٹینکوکریٹ کےلیے 48 ووٹوں کی ضرورت ہے، جبکہ خواتین نشست پر بھی پیپلزپارٹی کی امیدوار ہے اور ووٹ 48 چاہئیں۔ جے یو آئی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں قدرے مضبوط ہے، لیکن جے یو آئی بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنے ورکرز کو بھول گئی۔ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطا الرحمان اور اپنے داماد کے بھائی زبیر علی کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔

سینیٹ الیکشن میں جب سرمایہ دار اور رشتے دار آئیں گے اور کم ووٹوں کی نمائندہ جماعت اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوگی تو ہارس ٹریڈنگ کو کیسے روکا جاسکے گا۔ اسی لیے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس وقت اپوزیشن جماعتوں سے خطرہ نظر آرہا ہے، اسی لیے حکومت قانون سازی کےلیے تیار ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں نہیں چاہتیں کہ پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی تعداد بڑھ جائے۔ اس لیے ماضی میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کےلیے قانون سازی کی حمایتی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی اس بار قانون سازی کی بھی مخالفت کررہی ہیں۔ خریدو فروخت کے اس دھندے کو روکنے کےلیے حکومت کے اس موقف کی حمایت کرنا ہوگی کہ سینیٹ الیکشن کے قانون کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔