پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے فورس بنانے پرغور

آصف محمود  منگل 16 فروری 2021
گلگت بلتستان کی طرز پر پنجاب میں بھی وائلڈلائف فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے،  وزیرجنگلی حیات وفشریز  فوٹو: فائل

گلگت بلتستان کی طرز پر پنجاب میں بھی وائلڈلائف فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے، وزیرجنگلی حیات وفشریز فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ اورغیرقانونی شکار کی روک تھام کے لئے وائلڈلائف فورس بنانے پرغور کیا جارہا ہے جب کہ نایاب جنگلی حیات کے غیرقانونی شکارکو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کی بھی تجویزسامنے آئی ہے۔ 

پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ پنجاب جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش میں باقی صوبوں سے پیچھے ہے۔ یہاں نایاب نسل کی جنگلی حیات کا غیرقانونی شکار بھی کافی زیادہ کیاجاتا ہے۔ پنجاب وائلڈلائف کے تحفظ کے لئے صرف ایک ہزار کے قریب فیلڈ اسٹاف ہے جن کو وائلڈلائف واچر کہا جاتا ہے،وائلڈ لائف واچرز کے پاس غیرقانونی شکار کھیلنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے گاڑیاں ہیں اورنہ ہی انہیں اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے۔

پنجاب کے وزیرجنگلی حیات وفشریز سید صمصمام بخاری نے ٹربیون کوبتایا کہ انہوں نے گلگت بلتستان کی طرز پر پنجاب میں بھی وائلڈلائف فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے وہ وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم سے درخواست کریں گے کہ اس فورس کے قیام کی منظوری دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ وائلڈلائف فورس کے علاوہ پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ شدہ ایریاز بارے بھی ان کے تحفظات ہیں ، پنجاب کے جن علاقوں کو جنگلی حیات کے حوالے سے تحفظ شدہ قراردیا گیا ان علاقوں ا پربھی نظرثانی کی جائیگی۔ انہوں نے کہا جنگلی حیات سے متعلق آگاہی کو یونیورسٹیز کے نصاب کا حصہ بھی بنایا جارہا ہے اوربتدریج کالج اورسکول کی سطح پر بچوں کو جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق آگاہی اورتعلیم دی جائے گی۔

پنجاب میں 2006 سے 2008 کے دوران وائلڈ لائف پروٹیکشن فورس بنائی گئی تھیں، یہ فورس اب بھی بہاولپور اور سالٹ رینج میں کام کررہی ہیں، اس وقت اس فورس کے لئے گاڑیاں اوراسلحہ خریدا گیا تھا تاہم اس منصوبے کو مزید بڑھایا نہیں جاسکا۔ تاہم اس فورس کی وجہ سے ان علاقوں میں جنگلی حیات کے تحفظ میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر کے مطابق 2020 کے دوران غیرقانونی شکارکھیلنے اور پوچرز کے خلاف درجنوں کا رروائیاں کی گئیں اور تقریباً 26 ملین روپے سے زیادہ کے جرمانے وصول کئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود غیرقانونی شکار کو مکمل طور پرروکا نہیں جاسکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک توہمارے پاس فیلڈ اسٹاف کی کمی ہے، اس کے علاوہ جدید گاڑیاں ہیں اورنہ ہی اسلحہ ہے۔ غیرقانونی شکاریوں کے خلاف کارروائیوں میں ہمارے کئی وائلڈلائف واچر زخمی ہوئے ہیں۔ نایاب جنگلی جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنے یا پھرانہیں پکڑنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو چند گھنٹوں میں ان کی ضمانت ہوجاتی ہے کیونکہ یہ قابل ضمانت اقدام ہے۔ ہم نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ نایاب نسل کی جنگلی حیات کے شکار اور پکڑنے کے اقدام کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے تاکہ ملزم جب چند دن اور ہفتے جیل میں رہیں گے تو دوبارہ ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے۔ قیمتی جانور ہلاک کرنے والے چند ہزار روپے جرمانہ ادا کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔

پاکستان میں جنگلی حیات کی کنزرویشن کے حوالے سے دنیابھرمیں پہچان رکھنے والے عاشق احمد خان نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا وائلڈلائف فورس کا قیام کے ساتھ ساتھ جن علاقوں میں جنگلی حیات موجود ہے وہاں کی کمیونٹی کوان کے تحفظ بارے آگاہی دینے اور ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ ا س کے لئے کمیونٹی بیسیڈ آرگنائزیشن دنیا بھر میں بہترین ماڈل ہیں۔ جب آپ کمیونٹی کوبتائیں گے کہ انہیں نایاب جنگلی حیات کاشکارکرنے کی بجائے ان کے تحفظ سے زیادہ معاشی اورمعاشرتی فائدے حاصل ہوں گے تو وہ پھریقینا اس کا تحفظ کریں گے۔ چشمہ بیراج ، تونسہ بیراج اورچولستان کے علاقے جنگلی حیات سے مالامال ہیں اوربہت اچھے ایریازہیں یہاں سی بی اوزبنائی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں سب سے زیادہ آب گاہیں ہیں، یہاں سی بی اوز بنائی جاسکتی ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔