سیاسی قیادت اور جمہوریت کا مستقبل

ایڈیٹوریل  بدھ 17 فروری 2021
جمہوریت کے ارتقا اور فکری پھیلاؤ کی جگہ سیاست دانوں میں سیاسی انتشارکی ایک لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا ہے۔ فوٹوفائل

جمہوریت کے ارتقا اور فکری پھیلاؤ کی جگہ سیاست دانوں میں سیاسی انتشارکی ایک لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا ہے۔ فوٹوفائل

سینیٹ انتخابات کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر جو باتیں اور انکشافات منظرعام پرآرہے ہیں، حقائق اس قدر دل گرفتہ کردینے والے ہیں کہ دماغ ششدر رہ جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست، جمہوریت، ہماری خارجہ پالیسی، معیشت، سفارت، سیاسی اخلاقیات، سیاسی تعلقات، جمہوریت کے ارتقا اور فکری پھیلاؤ کی جگہ سیاست دانوں میں سیاسی انتشارکی ایک لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ کردیا ہے۔

جن مشاہیر اور سیاسی دانشوروں نے عوام کی خدمت کے لیے جس جمہوری نظام کی آبیاری کے لیے برس ہا برس دانش کے موتی رولے ، وہ پاکستان کی سیاسی تشکیل کا صرف جائزہ لیں گے تو انھیں ہماری جمہوری تاریخ ایک بے سمت سفر میں گم نظر آئے گی اور موجودہ اوراق سیاست کو پڑھتے ہوئے یا جمہوری نظام کے حقائق پر سوچ بچار سے انھیں اس حقیقت کا گہرا ادراک ہوگا کہ ہماری سیاسی قیادتوں نے جمہوریت کے ساتھ تجدید عہد کا دوسرا باب جدید دورکے جمہوری تجربات کے سیاق و سباق میں کھلنا پڑے گا۔

بلاشبہ سینیٹ الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے قوم کو جن اعصاب شکن تجربات، بیانات اور سیاسی جوڑ توڑ، انتخابی عمل کے دوران پیسے کی ریل پیل اور الزامات کا پینڈورا باکس دیکھنے کو ملا ہے، وہ حد درجہ وحشت ناک ہے۔ تاریخ کے مورخ کوکبھی بھی ان حقائق سے جمہوریت کے اساسی نظریات، سیاسی جماعتوں کے بنیادی سیاسی کردار اور قومی معاملات کے حوالہ سے ایک صحت مند منظر نامہ کی خوبصورت تصویر دیکھنے کو نہیں ملے گی، پھر سوال یہی ہے کہ ملک نے جمہوریت کے ارتقا کی تاریخ کی جستجو میں اتنے قیمتی سال دشت سیاست کی نذرکیے۔

اگر یہ سفر قوم سے کیے گئے حقیقی سیاسی وعدوں کی روشنی میں طے کیا گیا، وہ بیش بہا سیاسی سفرکا استعارہ تھا تو جمہوریت بے سمتی کے اندھیروں میں کیوں گم ہوگئی ہے، سیاست ایک دوسرے سے ناراض، اور ان اہداف سے کوسوں دورکیسے رہے جن کے لیے بابائے قوم نے خواب دیکھے تھے، اگر سیاست دانوں نے اپنے سفرکی ابتدا آئیڈیل انداز میں شروع کی تھی تو ہم گم کردہ راہ کیسے ہوگئے۔

کس طرح پاکستان نے جمہوریت کے نام پر قوم کو اس کے خوابوں سے محروم کیا، آج عوام ایک اجتماعی جمہوری بے بسی اور غیر معمولی سیاسی کشیدگی ، بلیم گیم، تعصبات، تنگ نظری اور سیاسی افراتفری کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، قوم کو جس فکری مرکزیت کی ضرورت ہے اس سے سیاسی قیادت انکاری ہے، کوئی سیاستدان اس بنیادی سوال کا جواب نہیں دیتا کہ موجودہ اندوہ ناک اور دل شکستہ صورتحال تک قوم کیسے آئی؟ جو ہم نے جمہوری کوششوں سے حاصل کیا ہے۔ اس کی قدر وقیمت جمہوری ثمرات کے حوالہ سے کیا ہے۔

کیا ہمارے سیاست دانوں میں رواداری ، اتفاق رائے، تعلقات کار، بصیرت، سیاسی پختگی، دور اندیشی،خیر سگالی اور راست گوئی اور وژن کی دولت موجود ہے، کیا ہم دست وگریباں نہیں ہیں؟ ان سوالات کا قوم جواب مانگتی ہے، ہم صحرا میں کھڑے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ بڑی دھوپ پڑرہی ہے۔

کوئی سائباں نہیں ہے ، لوگ سوال کرتے ہیں کہ گراں مایہ اس جمہوری جدوجہد کی حقیقت کیا ہے، ملک میں سیاست کے نام پر لڑائی جھگڑے کا کلچرکیوں پنپ رہا ہے، تعلیم، سائنس،ٹیکنالوجی، سفارت کاری، صنعتی ترقی، جامعات میں علم،تحقیق، فلسفہ، شاعری، فنون لطیفہ کے گلستان کیوں مرجھا گئے ہیں، ملک کے شہر اپنا حسن کیوں کھورہے ہیں،کراچی ،لاہور ،پشاور اورکوئٹہ میں سیاسی موسم بارود اور انسان دشمنی سے کب نجات پائے گا، ایسے کسی سیاسی موسم کی بات کرنے کے لیے اسمبلیوں میں زور خطابت صرف کرنے والے سیاست دان کس دیس سدھارگئے، ہر طرف لفظوں کی گولہ باری کب تھمے گی،کب ملک میں ہماری نئی نسل کو بے خوفی کا ماحول نصیب ہوگا، کب بندوق کو علم کی دہلیز پر جھکنا پڑے گا، یہ دن کب آئے گا، علم وتہذیب اور فنون و تخلیق ، محبت وانسانیت کو ناانصافی اور ظلم پرکب فوقیت اور بالادستی نصیب ہوگی۔

آج ملک و قوم کی نگاہ میں کن لفظوں میں کہیں کہ ایوان کا تقدس بری طرح مجروح ہوا ہے، جمہوری نظام کی شفافیت پر انگلیاں اٹھ رہی ہے، مسئلہ ہے امیدواروںکی  بولی لگنے کا، یہ افسوناک منظرنامہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں۔ سینیٹ میں ووٹنگ کے طریقہ کارکے حوالے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہے، گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ازخود اقدامات کرسکتا ہے، اب تو انتخابی کرپشن کی ویڈیوز آرہی ہیں۔

الیکشن کمیشن کو بتانا ہوگا شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو طلب کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں کرپشن روکنے اور شفافیت کے لیے اسکیم پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ سپریم کورٹ نے دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز نے اپنا موقف جمع کرا دیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بارکونسلزکا موقف ہے آئین کے خلاف کوئی کام نہ ہو۔

ان کا موقف آزادانہ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی جماعتوں والا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا شفاف الیکشن یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ آئین شفافیت یقینی بنانے کا کہتا ہے تو الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بااختیار ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا اوپن بیلٹ میں بھی ووٹ خفیہ طور پر ہی ڈالا جائے گا۔ جسٹس عمر بندیال نے کہا اب تو انتخابی کرپشن کی ویڈیو بھی سامنے آ رہی ہیں، الیکشن کمیشن کو بتانا ہوگا شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے، چیف جسٹس نے کہا صرف شیڈول دینا کافی نہیں، الیکشن کمیشن کو پولنگ اسکیم بنانا ہوگی۔

وکیل نے کہا الیکشن ایکٹ میں کرپشن کے خاتمے کا طریقہ کار موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکرپٹ پریکٹس تو جاری ہے۔ اے پی پی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن والے روز ووٹنگ خفیہ ہو لیکن بعد میں ووٹ کی شناخت ہونی چاہیے، اگر کہیں تضاد آتا ہے تو پارٹی سربراہ کو اس کا علم ہونا چاہیے، اس کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں۔ جسٹس عمربندیال نے استفسارکیا کہ کیا آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ بیلٹ کا سیریل نمبر ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی یہی مطلب ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے،کوئی قانون الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات ختم نہیں کرسکتا، اگر ووٹ کی خریدوفروخت ہوئی ہے تو اس کا تعین کیسے کریں گے جب تک بیلٹ نہ دیکھ لیں، اگر عام انتخابات میں انگوٹھے کی تصدیق ہو سکتی ہے تو یہی سینیٹ میں کیوں لاگو نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس نہیں ہونی چاہیے،اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ سینیٹ الیکشن شفاف ہوں،الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے، کوئی قانون اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ سینیٹ میں ووٹ کی خریدوفروخت کا سدباب کرے۔ یہ ریمارکس سینیٹ کے وقاروتقدس ، عدلیہ اور جمہوری انتخاب کے حوالے سے تاریخ کے اوراق میں درج ہونگے۔سچ تو یہ ہے کہ وقت ان زمینی حقائق پر سیاست دانوں اور حکمرانوں سے جرح کرے گا۔

گزشتہ بہتر برس سے جاری سیاسی صورتحال اس وقت سینیٹ الیکشن کے ایک مرکزی نقطے پر آکر ٹھہر گئی ہے۔ ملکی معاملات میں جنھجھلاہٹ اور دھندلاہٹ کا عنصر نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ ، مایوس کن سیاسی منظرنامہ ہمارے سامنے ہے،کسی بھی بریک تھروکی امید دم توڑ رہی ہے، ادارہ جاتی سطح پر بھی جوکچھ ہورہا ہے،وہ بھی کسی طور حوصلہ افزاء نہیں ہے ۔ملک میں بحران در بحران کا سلسلہ جاری ہے ،آٹا، چینی سے لے کر پیٹرول کے بحرانوں پرکمیشن بنے اور ان کی رپورٹس بھی منظرعام پر آئیں لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ،عوام منتظر ہی رہے۔

دوسری جانب سفارتی محاذ پر بھی ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، مسئلہ کشمیرکے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی لاکھ درست سہی، لیکن ہمیں اس مسئلے کو حل کروانے کے لیے اقوام عالم کی جو حمایت درکار ہے ، وہ ہم حاصل نہیں کر پائے ہیں ، ہم دوست ممالک کی طرف دوڑتے ، دوڑتے تھک گئے ہیں، جو ہماری حمایت کرنے کے بجائے اپنی اقتصادی اور معاشی مفادات کو دیکھ رہے ہیں جوکہ بھارت سے وابستہ ہیں۔ بھارت میں اس وقت ایسا شخص اور اس کی پارٹی برسراقتدار ہے، جو پاکستان کا دشمن ہے۔

اس نے ایسے پرفریب جال بچھائے ہیں کہ ہمارے دوست ممالک بھی ہماری حمایت ترک کرچکے ہیں۔ مودی سرکار نے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے اور پوری وادی میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے،کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا ہے، بھارت نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کونظراندازکرتے ہوئے ظلم وستم کا بازارگرم کررکھا ہے۔ وادی کشمیرکو ایک جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔

ہرایشو پر سیاست دانوں کو معتوب اور مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ، اگر ہم ملکی بیوروکریسی پربات کرلیں تو بہتررہے گا، ایک جانب یہ تاثر تقویت پاچکا ہے کہ ہماری بیوروکریسی معتوب ہے، اسے نوٹس مل رہے ہیں، دوسری جانب عوام بیوروکریسی کی کارکردگی سے مایوس ہورہے ہیں، یہ جو سارا منظر نامہ تشکیل پایا ہے ،انتہائی مایوس کن ہے۔

مایوسی کو امید میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سول سروس افسران کی تربیت اور ذہن سازی ایسے خطوط پرکی جائے، جس میں انھیں یہ بات ذہن نشین کروائی جائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں ، ان کے حاکم نہیں۔ اکیڈمی سے جو افسران نکلیں ان کے سامنے یہ نظریہ اور مقصد ہونا چاہیے کہ انھیں اپنے ملک کی قلب ماہیت تبدیل کرنی ہے ، قوانین تو لاتعداد بن چکے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد سے ہی صورتحال میں بہتری اور تبدیلی کی امید پیدا ہوسکتی ہے تاکہ الجھاؤ میں کمی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔