تجربہ گاہوں سے جو ملا

ندیم سبحان  اتوار 5 جنوری 2014
سان فرانسسکو میں قائم کھلونا ساز کمپنی Anki روبوٹک ٹیکنالوجی کو عام کرنے کی متمنی ہے۔  ۔ فوٹو: فائل

سان فرانسسکو میں قائم کھلونا ساز کمپنی Anki روبوٹک ٹیکنالوجی کو عام کرنے کی متمنی ہے۔ ۔ فوٹو: فائل

ایک ایجاد کو کون سی بات عظیم بناتی ہے؟ بعض اوقات یہ اس مشکل کو حل کردیتی ہے جو آپ کے خیال میں ناقابل حل ہوتی ہے۔

فلک بوس عمارات نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکتیں۔ قلم ہوا میں نہیں لکھ سکتا۔ مفلوج افراد چل پھر نہیں سکتے، مگر اب یہ سب کچھ ممکن ہے۔ اور کبھی کبھی کوئی ایجاد آپ کو درپیش اس مسئلے کا قلع قمع کردیتی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہوتا۔ شاید آپ کو کبھی یہ ادراک نہ ہوا ہو کہ آپ ڈونٹ اور کرونٹ ایک ساتھ کھانا چاہتے تھے، یا آپ کو کسی معدوم نسل کے مینڈک کو دوبارہ وجود عطا کرنے کی ضرورت تھی، یا آپ اپنے پورے جسم کو پاس ورڈ میں بدل دینا چاہتے تھے، مگر اب یہ سب کچھ آپ کرسکتے ہیں۔ نئی نئی ایجادات اور اختراعات جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کررہی ہیں وہیں ہم پر وہ گوشے بھی آشکارا کررہی ہیں جن سے ہم ابھی تک نابلد تھے۔

ذیل کی سطور میں ہم 2013ء کی ان ایجادات کا تذکرہ کررہے ہیں، جنھیں ٹائم میگزین نے بہترین کی صف میں شامل کیا۔

1۔ بغیر ڈرائیور کی ( کھلونا) کار

سان فرانسسکو میں قائم کھلونا ساز کمپنی Anki روبوٹک ٹیکنالوجی کو عام کرنے کی متمنی ہے۔ دوسو ڈالر قیمت کی Anki Drive کمپنی کی اسی خواہش کا مظہر ہے۔ یہ دراصل ایک ریسنگ گیم ہے جس میں کھلونا کاریں ازخود حرکت کرسکتی ہیں۔ ان کاروں میں سینسرز نصب ہیں جو کار کے اطراف سے متعلق معلومات یا ڈیٹا آئی فون یا آئی پیڈ کو منتقل کرتے ہیں۔ اس ڈیٹا کی مدد سے کھلاڑی کار کی رفتار اور پوزیشن کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں Anki ایپ یہ ہدایت دیتی ہے کہ دشمن کاروں کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ اس کے نتیجے میں کار اپنی دشمنوں کے خلاف انسانوں جیسی مہارت سے کام لیتے ہوئے حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے۔

2۔ ’’ گریویٹی‘‘ کا لائٹ باکس

 photo Inventions_zps2dfb53cc.jpg

ڈائریکٹر Alfonso Cuarón کو علم تھا کہ اسے اپنی فلم ’’گریویٹی‘‘ کے لیے سائنس فکشن فلموں کی روایتی تیکنیک سے انحراف کرنا ہوگا، کیوں کہ اس فلم میں آغاز سے اختتام تک خلا کے مناظر دکھائے جانے تھے۔ سنیماٹو گرافر ایمانوئیل لوبیز کی اور بصری تاثرات کے ماہر ٹم ویبر کے ساتھ مل کر اس نے ایک ’’ لائٹ باکس‘‘ بنایا۔ یہ باکس 20 فٹ چوڑا اور 10فٹ اونچا تھا۔ خلا کی منظر کشی کے لیے اس باکس کے اندر 196 پینلز نصب کیے گئے تھے، جن پر 4096 ایل ای ڈی بلب لگائے گئے تھے۔ یہ باکس ایسی شبیہیں بھی پروجیکٹ کرسکتا تھا جنھیں بعدازاں سی جی آئی (Computer-generated imagery ) کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکتا تھا۔ اکتوبر اور نومبر میں ریلیز کی گئی اس فلم میں دکھائے جانے والے تمام خلائی مناظر ’’ لائٹ باکس‘‘ ہی کے مرہون منت تھے۔

3۔ الکحلی کافی

 photo Inventions1_zpsd65575aa.jpg

پرتگیزی اور ہسپانوی محققین نے سائنسی جریدے ’’ایل ڈبلیو ٹی— فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ میں شایع شدہ اپنی تحقیق میں ایک نئے طرز کے کافی نما مشروب کی ایجاد کا اعلان کیا۔ اپنی تخلیق کو انھوں نے ’’الکحلی کافی‘‘ کا نام دیا۔ سائنس دانوں نے کافی کے استعمال شدہ بیجوں کو پہلے خشک کیا۔ بعدازاں ان کے سفوف کو پون گھنٹے تک پانی میں ابالنے کے بعد اسے چھانا اور پھر اس میں شکر اور خمیر ملادیا۔ سائنس دانوں نے اس آمیزے میں خمیر اٹھنے دیا اور پھر اس میں الکحلی جزو کو طاقت ور کرنے کے لیے اسے گاڑھا کرلیا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو مشروب تیار ہوا اس کا ذائقہ 80 فی صد ووڈکا جیسا تھا۔ محققین کا کہنا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مشروب کا ذائقہ بہتر ہوتا جاتا ہے۔ تاہم کافی کے بیجوں سے تیار شدہ یہ مشروب پینے کے بعد آپ چاق چوبند نہیں رہ سکیںگے، کیوں کہ خمیر اٹھنے کے عمل کے دوران اس میں سے کیفین کا عنصر غائب ہوجاتا ہے۔

4۔  سونی کا اسمارٹ لینس

 photo Inventions2_zps27e7e435.jpg

بڑ سینسرز، اعلیٰ معیار کے شیشے اور 3.6x آپٹیکل زوم کے ساتھ ساتھ سونی کے DSC-QX100 میں ہائی کوالٹی کے ڈیجیٹل کیمرے کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ تاہم اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ کے آئی فون اور اینڈرائیڈ فون سے منسلک ہوسکتا ہے۔ سونی کی ’’ پلے میموریز ایپ‘‘ کی بہ دولت آپ کا فون ’’ویو فائنڈر‘‘ کے طور پر کام کرتا ہے۔ فون سے علیحدہ کرنے پر یہ ریموٹ کنٹرول بن جاتا ہے۔ یہ کیمرا آپ کی جینز کی جیب میں نہیں سماسکتا، مگر اس کے لیے آپ کو کوئی بیگ بھی درکار نہیں ہوگا۔ اس کی قیمت 499 امریکی ڈالر ہے۔

5۔ دی کرونٹ

 photo Inventions3_zpscf6c4033.jpg

مئی 2013ء میں نیویارک کے مشہور شیف ڈومینیک اینسل نے جب ایک نئی ڈش کی فروخت شروع کی تو چند ہی دنوں میں اس کے ریستوراں کے باہر اس ڈش سے لطف اندوز ہونے کے خواہش مندوں کی قطاریں لگنی شروع ہوگئیں۔ ’’دی کرونٹ‘‘ نامی یہ ڈش دراصل پیسٹری جیسی ہوتی ہے جسے سوراخ دار میٹھی پوری (doughnut) کی طرح تلا بھی جاتا ہے۔ اس کے اندر کریم بھری جاتی ہے اور اس کی بالائی سطح پر روغن بھی لگایا جاتا ہے۔  ’’دی کرونٹ‘‘ کی مقبولیت سے متاثر ہوکر دنیا بھر میں اس جیسی مختلف ڈشیں بنائی جارہی ہیں۔ ’’دی کرونٹ‘‘ کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ 5 ڈالر کی ڈش 40 ڈالر میں بھی خرید رہے تھے۔

6۔  مشن آر

 photo Inventions4_zps46874548.jpg

’’ مشن آر‘‘ تیز ترین موٹر سائیکلوں میں نیا اضافہ ہے۔ اس میں 160 ہارس پاور کا انجن نصب ہے جو صرف تین سیکنڈ میں موٹر سائیکل کی رفتار کو صفر سے سو کلومیٹر فی گھنٹہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 240 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ’ری فیولنگ‘ کے بغیر یہ موٹر سائیکل 225 کا فاصلہ طے کرسکتی ہے۔ عام تیزترین موٹرسائیکلوں کے برعکس اس میں سے دھویں کا اخراج صفر ہے۔ عام موٹرسائیکلوں کے دہاڑتے انجنوں کے برعکس اس کا انجن آواز پیدا نہیں کرتا۔ موٹرسائیکل کو کنٹرول کرنے کے لیے اس میں ڈیجیٹل اسکرین پینل دیا گیا ہے۔ یہ سپربائیک پسٹن، کرینک شافٹ، کلچ اور موٹر سائیکل کے دیگر روایتی مکینیکل پارٹس سے محروم ہے۔ یہ تمام خصوصیات ایک ایسی سپربائیک ہی میں ممکن ہوسکتی تھیں جو برقی موٹر سے چلتی ہو۔ آپ اس سپربائیک کی بیٹری کو اپنے گھر پر یا کسی چارچنگ اسٹیشن پر بآسانی چارج کرسکتے ہیں۔

7۔ دی پلس پول

 photo Inventions5_zpsf5ed17c4.jpg

’’ دی پلس پول‘‘ ایک تیرتا ہوا تالاب ہے جسے نیویارک کے آلودہ مشرقی دریا میں ’ چھوڑا ‘ گیا ہے۔ یہ تالاب ایک تیر سے دو شکار کرتا ہے۔ دریا کے آلودہ پانی کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ نیویارک کے باسیوں کو تیراکی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کا منفرد فلٹریشن سسٹم دریا کے پانی کو آلودگی سے پاک کرتا ہے۔ اس تالاب کی شکل جمع کے نشان (+) جیسی ہے۔ اس کے ایک حصے میں تالاب ہے جب کہ بقیہ حصے مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈونگ پنگ وونگ، آرچی لی کوٹس اور جیفری فرینکلن کے ڈیزائن کردہ اس تالاب نے نیویارک کے رہائشیوں کے لیے سو برسوں میں پہلی بار دریا کے صاف و شفاف پانی میں غوطہ لگانا ممکن بنادیا ہے۔ 15ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے تالاب کے لیے سرمایہ ’’کِک اسٹارٹر‘‘ نے فراہم کیا تھا، تاہم ’’ دی پلس پول‘‘ کے منتظمین اسے 2016ء تک دریا کی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم جمع کررہے ہیں۔

8۔ The Oculus Rift

 photo Inventions6_zps6d714b80.jpg

The Oculus Rift ورچوئل ریئلٹی ہیڈسیٹ ہے جسے پہن کر استعمال کنندہ خود کو گیم کے سہہ سطحی ماحول کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ بہتر ہیڈ ٹریکنگ خصوصیات، وسیع حدنگاہ، اور کم قیمت کی بہ دولت یہ آلہ ’’ہوم ورچوئل ریئلٹی‘‘ کو حقیقت بناسکتا ہے۔

9۔ The Edible Password Pill

 photo Inventions7_zpsfec83337.jpg

اگر آپ ہیکنگ سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پیچیدہ پاس ورڈ کو بر قرار رکھنا سب سے اہم ہے۔ تاہم ان پاس ورڈز کو یاد رکھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ موٹرولا نے اس مشکل کا حلEdible Password Pill کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ گولی جوکہ ایک انتہائی مختصر چِپ پر مشتمل ہوگی، روزانہ کھائی جائے گی۔ گولی کے اندر موجود چِپ فعال ہونے کے لیے معدے میں تیزاب کا استعمال کرتی ہے۔ فعال ہونے کے بعد یہ 18-bit کے EKG جیسے سگنلز خارج کرتی ہے جنھیں آپ کا فون یا کمپیوٹر شناخت کرسکے گا، یعنی آپ کا جسم ہی پاس ورڈ میں بدل جائے گا۔ اگرچہ اس گولی نے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے عام استعمال کی اجازت کے لیے درکار بیشتر رکاوٹیں عبور کرلی ہیں، مگر پھر بھی اس کی فروخت جلد شروع نہیں ہوسکے گی۔

10۔ غیرمرئی عمارت

 photo Inventions8_zps6c38df25.jpg

جنوبی کوریا کی مجوزہ بلند عمارت The Tower Infinity دنیا کی پہلی عمارت ہوگی جو دن کے اوقات میں چند گھنٹوں کے لیے سب کی نظروں سے ’اوجھل‘ ہوجایا کرے گی۔ اس عمارت کا ڈیزائن جی ڈی ایس آرکیٹیکٹس نے 2008ء میں تیار کیا تھا۔ یہ عمارت ایل ای ڈی ٹیکنالوجی اور اٹھارہ موسمی اثرات سے مامون ہائی ڈیفینیشن کیمروں کا شان دار ملاپ ہوگی۔ یہ کیمرے اس عمارت کے سامنے والے حصے میں نصب کیے جائیں گے اور ایسا سحر پیدا کریں گے کہ کچھ مخصوص مقامات سے دیکھنے والوں کو عمارت نظر نہیں آئے گی۔ تاہم طیاروں اور پرندوں کی ’ نگاہ‘ سے The Tower Infinity اوجھل نہیں ہوسکیں گے۔ 450 میٹر بلند عمارت میں ایک تفریحی کمپلیکس، اور دنیا کی تیسری بلند ترین ’’ آبزرویشن ڈیک‘‘ بھی ہوگی۔

11 ۔ تھری ڈوڈلر

 photo Inventions9_zps1063a5c6.jpg

قلم یوں تو لکھنے کے کام آتا ہے، مگر ’’تھری ڈوڈلر‘‘ ایسا جادوئی قلم ہے جس سے آپ مختلف چیزیں بناسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک تھری ڈی پرنٹر ہے جس کے اندر بھرا ہوا پلاسٹک گرم ہوتا ہے اور پھر ٹھنڈا ہونے پر آپ کی مرضی کے مطابق کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ آپ اس قلم سے میز، کرسی، بالٹی سمیت کچھ بھی بناسکتے ہیں۔ یہ قلم بوسٹن میں قائم کمپنی WobbleWorks سے وابستہ میکسویل بوگیو، پیٹر ڈل ورتھ اور ڈینیئل کی ایجاد ہے۔ یہ قلم ایک سو ڈالر میں آن لائن خریدا جاسکتا ہے۔

12۔ وولوو کا سولر پویلین

 photo Inventions10_zpsbcac772e.jpg

جب سویڈش کار ساز ادارے Volvo نے اپنی V60 ہبرڈ کار کے لیے سائبان تیار کرنے کا چیلنج دیا تو ’’سنتھسس ڈیزائن اینڈ آرکیٹیکچر‘‘ نامی کمپنی نے ایک منفرد لچک دار سولر پینل ڈیزائن کیا جو نہ صرف کار کو چارج کرسکتا تھا بلکہ اسے تہہ کرکے کار کی ڈگی ہی میں رکھا جاسکتا تھا۔ سائبان ابھی آزمائشی مراحل میں ہے۔

13۔ مصنوعی یادیں

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے اسے ’’پروجیکٹ انسیپشن‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کا مقصد ایک چوہے کو ان افعال پر یقین کرنے پر مجبور کرنا تھا جو اس نے انجام ہی نہیں دیے تھے یا ہوئے ہی نہیں تھے۔ انسان کو ان باتوں یا کاموں پر یقین کرنے پر مجبور کردینے کا خیال، جو اس نے کیے ہی نہ ہوں یا جو وقوع پذیر ہی نہ ہوئے ہوں، لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم  Inception میں پیش کیا گیا تھا۔ سائنس دانوں کے اس منصوبے کی بنیاد بھی یہی فلم بنی تھی۔ بالآخر انھوں نے اس منصوبے کو حقیقت میں بدلنے میں کام یابی حاصل کرلی۔ یادداشت سے متعلق دماغی خلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بعد سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک چوہے کو تکلیف کے باعث اپنی دائیں ٹانگ کو حرکت دینے پر مجبور کیا جب کہ حقیقت میں اس کی بائیں ٹانگ پر ضرب لگائی گئی تھی۔ ایم آئی ٹی کے محققین کا کہنا تھا۔ ان کی تحقیق انسانوں کے لیے خوش گوار نتائج کی حامل بھی ثابت ہوسکے گی۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر انسان اپنی تکلیف دہ یادداشتوں کو دماغ کے پردے پر سے مٹانے میں کام یاب ہوجائیں۔

14۔ The Amplituhedron

 photo Inventions11_zps9043c790.jpg

پرنسٹن، نیوجرسی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ماہرین طبیعیات نے حال ہی میں ذیلی ایٹمی ذرات کے ٹکراؤ کی پیش گوئی کرنے کے لیے ایک بہت اہم شارٹ کٹ دریافت کرلیا۔ نیا طریقہ ٹکراؤ کے امکانات کو مخروط جیسی ساخت کی صورت میں پیش کرتا ہے، پھر ان مخروطوں کو یکجا کرکے ایک خوب صورت نگینے کی شکل دیتا ہے جسے amplituhedronکہا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ان ذرات کے باہمی تعامل کا اندازہ لگانا بے حد سہل ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں amplituhedron کشش ثقل کوانٹم نظریے کی جانب بھی راہ نمائی کرسکتا ہے، سائنس داں ایک عرصے سے جس کی تلاش میں ہیں۔

15۔ Nest Protect Smoke Alarm

 photo Inventions12_zpscf2658dd.jpg

’’ دی نیسٹ پروٹیکٹ‘‘ دھویں اور کاربن مونو آکسائیڈ کو شناخت اور محسوس کرنے والا جدید ترین آلہ ہے۔ یہ خود کار طور پر گھر میں دھویں یا اس گیس کے اخراج کو محسوس کرلیتا ہے۔ اور اگر اس کے چلّانے کا سبب محض جلتے ہوئے ٹوسٹ سے اٹھنے والا دھواں ہے تو آپ محض ہاتھ ہلا کر بھی اسے خاموش کرسکتے ہیں۔ گھر میں ’’نیسٹ پروٹیکٹ‘‘ کے نصب شدہ تمام یونٹ آپ کے فون اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ جب ان کی بیٹری ختم ہونے لگے تو یہ فون پر میسج کرکے آگاہ کردیتے ہیں۔

16۔ نئی ایٹمی گھڑی

 photo Inventions13_zps3c044067.jpg

وقت کی درست پیمائش کے لیے سائنس داں تاب کاری کے تعدد کو اسٹاپ واچ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عام الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ برانگیختہ سیزیم ایٹموں پر مشتمل ایٹمی گھڑی سے وقت کی درست ترین پیمائش کا کام لیتے ہیں۔ تاہم ایٹمی گھڑیوں کے وقت میں ہر دس کروڑ سال کے بعد ایک سیکنڈ کا فرق آجانے کی گنجائش موجود ہے۔ اگست 2013ء میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین طبیعات نے نئے طرز کی ایٹمی گھڑی متعارف کروائی جو روشنی کے پنجروں یعنی بصری جالیوں میں قید اٹربیم ایٹموں کی پیمائش کرتی ہے۔ یہ گھڑی موجودہ ایٹمی گھڑیوں سے ایک سو گنا زیادہ درستی سے وقت بتانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

17۔ The Gravitylight

 photo Inventions14_zps01a76b54.jpg

’’ ڈیسی واٹ‘‘ نامی کمپنی کے انجنیئروں سے کہا گیا تھا کہ وہ آلودگی پھیلانے والے کیروسین لیمپ کا متبادل تیار کریں تیسری دنیا میں جس کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ انھیں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ متبادل کی قیمت 10ڈالر سے کم ہونی چاہیے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انھوں نے GravityLight  کی صورت میں لالٹین کا متبادل پیش کردیا۔ یہ لائٹ پتھروں، ریت، پانی سے بھرے ہوئے تھیلے یا کسی بھی بھاری شے کے وزن کی صورت میں لگنے والی قوت کے نتیجے میں 25 منٹ تک روشن رہتی ہے۔

18۔  اسپیس شپ ٹو

 photo Inventions15_zps71145541.jpg

برطانوی کمپنی Virgin Galactic کا تیار کردہ خلائی جہاز ’’اسپیس شپ ٹو‘‘ دولت مند مسافروںکو زمین کے مدار میں سیر کی غرض سے لے جانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ خلائی جہاز 2014ء کے اوائل میں مسافروں کو خلا میں لے جانا شروع کردے گا۔ زمین کی کشش ثقل کو شکست دے کر مدار میں پہنچنے اور پھر وہاں سے واپس آکر زمین پر اترنے کے لیے اس میں ایک راکٹ موٹر لگائی گئی ہے۔ خلائی سیر کے خواہش مندوں کو بے وزنی کی کیفیت سے لطف اندوز ہونے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’ اسپیس شپ ٹو‘‘ کے فعال ہونے سے خلائی سیاحت کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور اس شعبے پر قائم حکومتوں کی اجارہ داری بھی ختم ہوجائے گی۔

19۔ The Gastric-Brooding FROG

 photo Inventions16_zps1f1915f8.jpg

نیوکیسل میں قائم آسٹریلوی یونی ورسٹی کے سائنس داں ایک ایسے مینڈک کے منجمد نسیجوں سے حاصل کردہ ڈی این اے کو کام میں لاتے ہوئے اس کا جنین تیار کرلیا جو 1983ء میں معدوم ہوگیا تھا۔ اس نسل کے مینڈک اپنے منہ سے بچے پیدا کرتے تھے۔ جب نر مینڈک انڈوں کو باہر رکھتے ہوئے انڈوں کو بارآور بنالیتا ہے تو پھر اس کی مادہ انڈوں کو نگل لیتی ہے، اور کچھ وقت کے بعد بچوں کو اُگل دیتی ہے۔ معدوم جانوروں کو پھر سے زندہ کرنے کے اس منصوبے کو Lazarus Project کا نام دیا گیا ہے۔ پروفیسر مائیک آرچر اس کے نگراں ہیں اور اب ان کی نظریں تسمانیہ کے شیر کو زندہ کرنے پر ہیں۔

20۔ اٹلس روبوٹ

 photo Inventions17_zpsdb140ff6.jpg

یہ روبوٹ آلات سے کام لے سکتا ہے، ناہموار جگہوں پر رینگ سکتا ہے، اور کیمروں اور لیزر رینج فائنڈر کے ذریعے اشیاء کے محل وقوع کا پتا لگاسکتا ہے۔  ’’اٹلس روبوٹ‘‘ ناگہانی صورت حال میں رضاکارانہ کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ فی الوقت اس کی آزمائش کی جارہی ہے۔ یہ روبوٹ ’’بوسٹن ڈائنامکس‘‘ نامی کمپنی نے تیار کیا ہے، اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمۂ دفاع نے فراہم کیے تھے۔

21۔ The Argus II

 photo Inventions18_zpsbe98c700.jpg

امریکا کی ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ نے اس آلے کے استعمال کی منظوری دے دی ہے، جو retinitis pigmentosaنامی بینائی کے مرض میں مبتلا افراد کی بینائی جزوی طور پر بحال کرسکتا ہے۔ یہ بیماری آگے چل کر متاثرہ افراد کو اندھے پن سے دوچار کرسکتی ہے۔ Argus II نامی یہ آلہ امپلانٹڈ مصنوعی ریٹینا اور ایک ویڈیو یونٹ سے منسلک چشمے پر مشتمل ہے جو مریضوں کو چیزوں کے ہیولے اورروشنی اور اندھیرے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے۔

22۔ The X-47B drone

 photo Inventions19_zps8e0aaa3c.jpg

ڈرون طیارے MQ-1 Predator کی شان دار پذیرائی کے بعد امریکی نیوی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پائلٹ کے بغیر اڑنے والا مال بردار طیارہ  X-47B تیار کررہی ہے۔ ایک ٹن وزنی پریڈیٹر کے برعکس چار سلنڈر اور 115 ہارس پاور کے انجن کا حامل X-47B 20ٹن وزنی ہے۔ اس میں وہی جیٹ انجن نصب ہے جو اس جسامت کے لڑاکا طیاروں میں ہوتا ہے۔ اس ڈرون میں 4500 پونڈ وزنی ہتھیار لے جانے کی گنجائش ہوگی۔  X-47Bکا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کی رینج پائلٹ والے طیاروں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی جس کی وجہ سے امریکا کے طیارہ بردار جہاز سمندر میں محفوظ فاصلے پر لنگرانداز ہوسکیں گے۔

23۔ Waterless Fracking

 photo Inventions20_zps7ebc5fed.jpg

تیل اور گیس حاصل کرنے کی غرض سے مائع کے دباؤ کے ذریعے زیرزمین چٹانوں کو توڑنے کے عمل ( Fracking) پر بحث کا مطلب پانی پر بحث ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چٹانوں کو توڑنے میں مائع کا استعمال زیرزمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے مائع کا استعمال کیے بغیر اس عمل کو ممکن بنایا جائے۔ کینیڈا کی کمپنی GasFrac تیل و گیس کے کنویں کھودنے کے لیے پانی کے بجائے جیلی نما مادّہ ملے ہوئے مائع پیٹرولیم سے کام لیتی ہے۔ یہ جیلی نما مائع بعدازاں بخارات بن کر اڑجاتا ہے جس کی وجہ سے زیرزمین آبی ذخائر کے آلودہ ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

24۔ مصنوعی لبلبہ

 photo Inventions22_zps907c86f6.jpg

مصنوعی لبلبہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے منظور کیا جانے والا وہ پہلا آلہ ہے جو حقیقی لبلبے کی طرح خون میں شکر کی کم ہوتی سطح کو محسوس کرکے ٹائپ وَن ذیابیطس کے لیے انسولین کی فراہمی منقطع کردیتا ہے۔ حالت نیند میں انسولین کا زیادہ مقدار میں اخراج عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ذیابیطس کا مریض کوما میں بھی جاسکتا ہے۔

25۔ ری واک

 photo Inventions21_zps147bac90.jpg

آپ اسے بیرونی ڈھانچا کہیں یا بایونک سوٹ، مفلوج افراد کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ ایک فالج زدہ اسرائیلی سائنس داں کی وضع کردہ یہ ڈیوائس سینسرز پر انحصار کرتی ہے جو صارف کے توازن میں تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اس کے مطابق ڈیوائس کو حرکت دیتے ہیں۔ یورپ میں اس سوٹ کی فروخت شروع ہوچکی ہے جب کہ امریکا میں اس کی اجازت دینے کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جائزہ لے رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔