ساکہ ننکانہ صاحب کے 100 سال

آصف محمود  ہفتہ 20 فروری 2021
مہنت نارائن داس کے ملازموں اور برطانوی فوج نے سکھوں پر اندھادھند گولیاں برسائیں۔ (فوٹو: فائل)

مہنت نارائن داس کے ملازموں اور برطانوی فوج نے سکھوں پر اندھادھند گولیاں برسائیں۔ (فوٹو: فائل)

گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب میں داخل ہوں تو مرکزی عمارت کے دائیں جانب جنڈ کا ایک درخت ہے۔ جنڈ کا یہ درخت 100 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اور ایک بہت بڑے سانحے کا گواہ بھی ہے۔ جنم استھان ننکانہ صاحب میں گزرتے وقت کے ساتھ کئی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہ درخت آج بھی محفوظ ہے۔

جنڈ کا یہ درخت 1921 میں یہاں سکھوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا گواہ ہے۔ اس درخت کے ساتھ مہنتوں اور برطانوی فوج کی بربریت کا نشانہ بننے والے بھائی لکشمن سنگھ کی لاش لٹکائی گئی تھی۔ گوردوراہ جنم استھان کے صحن میں ہر طرف سکھوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ سیکڑوں زخمی تھے اور انہیں کوئی پانی پلانے والا بھی نہیں تھا۔ یہ 21 فروری 1921 کا سیاہ دن تھا۔

یہ تحریر بھی پڑھئے: ’’ساکہ ننکانہ صاحب‘‘ کی 100 سالہ تقریبات منانے کا فیصلہ

ہندوستان میں سکھوں کے درجنوں مقدس گوردواروں پر مہنتوں نے قبضہ کرکے انہیں اپنی ذاتی جاگیر بنا رکھا تھا۔ گوردواروں سے حاصل ہونے والی آمدن کو بے دریغ خرچ کیا جاتا۔ اگر کوئی سکھ آواز اٹھاتا تو مہنت اس کی آواز کو ہمیشہ کےلیے بند کردیتے۔ اس لوٹ مار اور سکھوں پر مظالم میں مہنتوں کو برطانوی حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل تھی، کیونکہ یہ مہنت سیدھے سادے سکھوں کو برطانوی حکومت کے زیرسایہ رہنے کا درس دیتے رہتے تھے۔ درد دل رکھنے والے سکھ کڑھتے رہتے اور ان مہنتوں سے گوردوارے واپس لینے کی کوششوں میں لگے تھے۔

اس سے قبل 1920 میں سکھوں نے اپنے مقدس گوردوارے مہنتوں سے واپس لینے کی تحریک شروع کی اور اس کےلیے شرومنی اکالی دل کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنی جدوجہد اور کوششوں سے کئی گوردوارے واپس لے لیے۔ فروری 1921 میں بھائی لکشمن سنگھ کی قیادت میں 160 سکھوں کا جتھہ جنم استھان ننکانہ صاحب پہنچا۔ جنم استھان پر اس وقت مہنت نارائن داس کا قبضہ تھا اور گوردوارے میں ہونے والے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا۔ بھائی لکشمن سنگھ جب اپنے ساتھیوں سمیت یہاں پہنچے تو مہنت نارائن داس کے ملازموں اور برطانوی فوج نے ان پر اندھادھند گولیاں برسائیں۔ جنم استھان کے دروازے بند کردیے گئے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد سکھ قوم کےلیے یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ تاریخی معلومات کے مطابق اس سانحے میں 260 سکھ مارے گئے، جن میں بچے اور بزرگ بھی شامل تھے، جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ سکھ جتھے کے سربراہ بھائی لکشمن سنگھ کی لاش کو گوردوارہ صاحب کے صحن میں موجود جنڈ کے درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ اس قیامت صغریٰ کی اطلاع جب ہندوستان بھر میں پھیلی تو سکھوں میں غم وغصہ بڑھ گیا۔ سردار کرتار سنگھ جبر کی سربراہی میں ہزاروں سکھوں نے امرتسر سے ننکانہ صاحب کی طرف رخ کیا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت گھبرا گئی اور گوردوارہ جنم استھان کی چابیاں سکھوں کے حوالے کردی گئیں۔

1947 کی تقسیم تک یہ گوردوارہ شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے پاس رہا۔ اس کے بعد اس کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان نے سنبھال لیا۔ پاکستان میں موجود سکھوں اور ہندوؤں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال کےلیے متروکہ وقف املاک بورڈ تشکیل دیا گیا اور پھر پاکستان سکھ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کا قیام عمل میں آنے کے بعد پاکستان میں موجود تمام گوردواروں کی دیکھ بھال اس کے سپرد کردی گئیں۔

سکھ قوم فروری 1921 میں پیش آنے والے اس سانحے کو ساکہ ننکانہ صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس سال سانحے کو 100 سال مکمل ہوگئے ہیں اور سکھ قوم سانحہ ساکہ کی 100 سالہ تقریبات بھرپور طریقے سے منارہی ہے۔ ساکہ ننکانہ صاحب کی صدسالہ تقریبات میں شرکت کےلیے بھارت سے بڑی تعداد میں یاتری شریک ہوتے ہیں۔ شری ننکانہ صاحب میں مرکزی تقریب 21 فروری کو ہوگی جس میں ان سکھوں کی قربانیوں کو یاد کیا جائیگا جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور اس مقدس استھان کو آزاد کروایا تھا۔

گوردوارہ جنم استھان میں ان دنوں بہت رونق ہے۔ اندرون اور بیرون ملک سے سنکھ یہاں پہنچے ہیں اور مذہبی رسومات ادا کی جارہی ہیں۔ ساکہ ننکانہ صاحب پر جہاں سکھ قوم دکھی ہے وہیں انہیں فخربھی ہے کہ ان کے بھائیوں کی قربانی سے یہ مقدس استھان مہنتوں کے قبضے سے واپس مل گیا تھا۔

پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سیکریٹری سردار امیرسنگھ نے بتایا کہ یہ سانحہ اس دور میں پیش آیا جب برطانوی حکومت نے گوردواروں میں اپنے تنخواہ دار تعینات کر رکھے تھے۔ اس مقدس استھان کو مہنتوں نے اپنی جاگیر بنا رکھا تھا۔ یہاں بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکھ قوم نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور بالآخر گوردوارے آزاد کروالیے۔

جنڈ کے اس درخت کے پاس ہی ایک تختی پر ساکہ ننکانہ صاحب کی مختصر تفصیل اور ان لوگوں کے نام لکھے گئے ہیں، جہنوں نے اپنے خون کی قربانی دی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔